15 جنوری کو ہوئے انتخاب کو آج ایک دس دن سے زائد وقت گزر چکا مگر اب تک مئیر کراچی کا فیصلہ نہ ہوپایا، جس کی وجہ ظاہر ہے کہ منقسم نتائج ہیں۔ پندرہ تاریخ کی شام پانچ بجے کے بعد جو کھیل شروع ہوا ہے چاچا خیرو کہتے ہیں کہ پاکستان میں انتخابی سیاسی کھیل میں دراصل پانچ بجے کے بعد اگلے 72 گھنٹے ہی اہم ترین ہوتے ہیں، جیسا کہ کسی کا عزیز آئی سی یو میں پڑا ہو اور کچھ عزیز واقارب خون کا انتظام، پیسوں کا انتظام کرتے پھرتے ہیں اور بقیہ وارڈ کے باہر بیٹھے یا ٹہلتے پائے جاتے ہیں۔
چاچا خیرو تو کہتے ہیں کہ بھئی یہ ووٹ شوٹ ڈالنے کا کام تو وہ جماعتیں کرتی ہیں جن کو آج بھی پاکستان کی سیاست میں جمہوریت اور شرافت پر یقین ہے، ورنہ تو انتخابی سیاست کے نتائج تو پولنگ اسٹیشن سے نہیں بلکہ آر او یا الیکشن کمیشن کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر سے ملتے ہیں، اب جو لوگ چار چھے مہینہ کی انتخابی مہم کے بعد پولنگ ڈے پر بھرپور محنت کرتے اور اپنی کوششوں کو ووٹ کی شکل میں منتقل ہوتے دیکھ کر اطمینان اور خوشی کا اظہار کررہے ہوتے ہیں ان بے چاروں کو نہیں پتا کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ کیا ہوتا ہے یہ عمل؟ تو وہ یہ ہے کہ پولنگ کے بعد ووٹ کی گنتی کا عمل جو دو حصوں پر مبنی ہوتا ہے اور پہلی کے بعد فائنل کائونٹنگ، جس میں بھی بہت زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے بعد اس سے بھی زیادہ اہم کام کہ پریزائڈنگ افسر سے فارم نمبر 11 لینا کہ جس میں تمام امیدواروں کے حاصل شدہ ووٹ اور ضائع شدہ چیلنج شدہ ووٹ کی گنتی ہوتی ہے، اچھا ابھی ایک اور مرحلہ یعنی فارم 12 کا حصول ہے، جو دراصل پولنگ دن کا درجہ دوم کا اہم ترین کام ہے یعنی اس میں PO اس دن صبح کو جتنے بیلٹ پیپر وصول کرتا ہے۔ ووٹ کے لیے جاری کرتا ہے۔ خراب، مسترد، چیلنج، ٹینڈر شدہ ووٹ کا اندراج کرتا ہے، اور اس میں اگر تو PO گڑ بڑ ہے تو پہلے تو وہ منع کردیتا ہے، رعب ڈالتا ہے، انکار کردیتا ہے، الیکشن کمیشن میں جاکر بنانے کا کہتا ہے، مگر جو ہوشیار پولنگ ایجنٹ ہوتے ہیں، وہ یہ دونوں فارم لیکر ہی ٹلتے ہیں، اب آج جہاں جہاں نتائج پر مسئلہ نظر آرہا ہے ان میں سے زیادہ تر پر یہی بات نظر آتی ہے کہ پولنگ ایجنٹ یہ فارم لیے بغیر یا صرف فارم 11 لیکر ہی چلے گئے، اب نتائج آر او کے ہاتھ میں ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے فارم 12 کے مطابق نئے فارم،11 بھی تیار کررہا ہے۔ یہ بات تو راقم کئی دن سے اپنے کچھ دوستوں سے کررہا تھا کہ آپ لوگ تو ووٹ لینے کی مہم چلا رہے ہیں مگر ایک پارٹی اپنی انتخابی تیاری کسی اور طرح سے کررہی ہے یعنی وہ تین کام کررہے ہیں۔
پہلا: انتخابی حلقے اپنی مرضی کے کہیں 20 ہزار کا اور کہیں 75 ہزار کا حلقہ دوسرا: ووٹنگ لسٹیں، ان میں ایک گھر سے دو دو تین تین جگہوں پہ ووٹ کی توڑ پھوڑ، تیسرا: اہم ترین کام کہ پولنگ اسٹاف، الیکشن کمیشن، بیوروکریسی کی پوسٹنگ اور ان پہ دبائو اور اب یہ سارا انتظام سامنے آرہا ہے کہ کس طرح سے انتخابی عمل کو ثبوتاژ اور اپنی مرضی کے مطابق تیار کرنا، یعنی، جن کو کراچی میں کسی چھوٹے موٹے جلسہ کو کرنے کے لیے اندرون سندھ سے لوگ لانے پڑتے ہوں ان کو کراچی شہر کے اندرونی حصوں سے جہاں اردو بولنے والوں کا ووٹ بینک ہو وہاں سے کثیر تعداد میں ووٹ مل جائیں، اب آج جماعت اسلامی کا موقف یہ ہے کہ جو بدعنوانی ووٹنگ کے دن ہوچکی اس کو چھوڑیں، جن حلقوں سے فارم 11، اور 12 مل چکے ان کے نتائج دیے جائیں، ان پر تو جھرلونہ پھیریں۔
انتخابی عمل کے پہلے حصہ کو ہوئے،آج بارہ دن سے زائد ہوچکے اب تیسرا اہم مرحلہ یعنی جوڑ توڑ کا عمل، ایک طرف پیپلز پارٹی دعویٰ کرتی ہے کہ وہ شہر کی سب سے بڑی پارٹی بن کر آئی ہے کہ اس نے 93 نشستیں حاصل کی ہیں اور وہ مسلم لیگ اور دیگر ایک دو نشستیں لینے والے آزاد جیتنے والوں کو اپنے ساتھ ملا کر مئیر لارہی ہے اور دوسرے آپشن کے تحت جماعت اسلامی کی طرف بھی ہاتھ بڑھا رہی ہے، اور تحریک انصاف یہ کہتی ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے ساتھ نہیں جائے گی اور تیسری طرف جماعت اسلامی کہتی ہے کہ وہ سارے آپشن پر غور کررہی ہے، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور سب کو ساتھ ملا کر بھی چلنے کا۔ یہ بات نظریاتی طور پہ تو درست ہے۔ مگر اس کے علاوہ بھی کچھ باتیں ہیں، وہ یہ کہ ان تقسیم شدہ نشستوں پر اب اعصابی جنگ ہے، کافی پروپیگنڈے چل رہے ہیں۔ ایک: تحریک انصاف کہتی ہے کہ جماعت اور پیپلز پارٹی کا اتحاد ہوگیا، جس پہ وہ کھیلے گی، دوسرا: ایم کیو ایم کہتی ہے کہ جماعت پیپلز پارٹی کی گود میں جا بیٹھی ہے اور اس کی، B ٹیم بن چکی ہے، تیسرا: پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ جماعت ان کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتی، جبکہ ابھی تک کچھ بھی حتمی نہیں ہے۔ حافظ نعیم کا بیانیہ یہ ہے کہ پہلے تو ان 9 نشستوں کا فیصلہ ہو جن کے فارم 11 اور 12 ہاتھ میں ہیں، جن میں سے 2 نشستیں ان کو مل بھی چکی ہیں، جس سے صورت یکسر تبدیل ہوسکتی ہے، یعنی پیپلز پارٹی 84 اور جماعت 95 پرکھڑی ہوگی، اور اس کے بعد بھی حافظ نعیم کا یہ کہنا ہے کہ وہ ایک یا دو پارٹی کی بلدیہ نہیں بلکہ سب کو اسٹیک ہولڈر کے طور پہ لیکر چلیں گے۔
اگر جماعت اسلامی پیپلز پارٹی کے ساتھ جاتی ہے تو شاید، جلدی نہیں تو کچھ عرصہ بعد ہی پیسے اور اختیارات کی منتقلی ممکن ہے، مگر تحریک انصاف کے ساتھ جانے میں پیپلز پارٹی کی دشمنی کی جنگ میں اضافہ تو ممکن ہے مگر جس بیانیہ پہ حافظ صاحب کھڑے ہیں یعنی کراچی کی بہتری اور بحالی وہ پیچھے ہوجائے گا اور وہ صرف لڑائی ہی میں اپنا وقت پورا اور راہ کھوٹی کریں گے۔
بے شک اس وقت سخت کشیدگی اور اعصاب توڑ صورت حال ہے، مگر میرا خیال ہے کہ حافظ نعیم گزشتہ 4 چار سال سے اس کراچی بحالی کی جنگ میں کودے ہیں اور ’’حق دو کراچی کو‘‘ کا نعرہ لے کر چلے ہیں اور ان کے اس بیانیہ کو بڑی پزیرائی ملی ہے، ان کو بھی اس صورت حال کا اندازہ ہوگا، گوکہ نتائج تھوڑے بہت اندازے سے مختلف آئے ہیں، مگر میرا خیال ہے کہ اس وقت طاقت کے ’’سینگ‘‘ حافظ نعیم کے ووٹ ہی ہیں، یہ بھی دیکھیں کہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف پیپلز پارٹی سے اپنی جنگ میں اگر ناکام نہیں تو بہرحال مشکل صورت میں تو ہیں، اور اب ان کی خواہش اور مطالبہ یہ ہے کہ جماعت ان کے ایجنڈے کو پورا کرے، یعنی، شہر میں انارکی اور بدامنی کو فروغ دے، جس کا نتیجہ پورے ملک کی سیاست پر حاوی ہوسکتا ہے، اور یہ پروپیگنڈا مہم اس وقت سیاسی گماشتوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کے بھونپو اور جماعت اسلامی میں دوسری جماعتوں کے حمایتیوں کے ذریعہ پورے زور و شور سے جاری ہے، ہمارے کوئٹہ والے دوست جو واقعی قلم کے دھنی ہیں کے پندرہ جنوری سے قبل کے مطابق تو اگر جماعت نے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد نہ کیا تو جماعت پانی میں بہ جائے گی، مگر اب بہرحال وہ اپنے موقف میں کچھ تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئے ہیں، مگر ابھی بھی وہ یہی کہتے ہیں حافظ نعیم نے جو طاقت یا مینڈیٹ حاصل کیا ہے اس کو تحریک کی گود میں ڈالا جائے تو ہی کامیابی قدم چومے گی، ورنہ حافظ نعیم کو کسی کے قدم چومنے پڑیں گے، اور بقول ’’مجیب ایوبی‘‘ کے جنہوں نے فیس بک پہ محلہ کی نوجوان و خوبصورت بیوہ یعنی سب کی بھابھی کے عنوان سے لکھا ہے کہ، محلہ کے نوجوان، اس کا بھائی تو نہیں بن سکتے مگر، ہاتھ لگانے، یا نظر بازی سے لطف ہونے کے لیے، مشورہ پہ مشورہ دینا ضرور اپنا فرض سمجھ رہے ہیں کہ جس سے ان کی بات بھی رہ جائے، اور نوجوان بیوہ سامنے بھی رہتی رہے، اب چاچا خیرو تو اپنے موقف پہ قائم ہی ہیں، مگر چچا بقراط یہ کہتے ہیں کہ اس وقت مشکل میں حافظ نعیم نہیں بلکہ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم ہیں کہ اس ساری صورت حال میں اصل نقصان کس کے ہوئے ہیں۔