پاکستانی معیشت‘جنگ رہے اور امن بھی ہو…؟

443

ملک اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، ہم معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں، ہر گزرتے دن کے ساتھ معیشت کمزور سے کمزور تر ہو رہی ہے، حکمران اگرچہ ہر روز نئے سے نئے دعوے کرتے اور عوام کو طفل تسلیاں دیتے سنائی دیتے ہیں مگر عملی حقیقت یہ ہے کہ ’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘ حکمرانوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کہ معاشی حالات کو کس طرح سنبھالا دیا جائے، ڈالر کو کیپ رکھ کر قابو میں لانے کی تمام حکومتی کوششیں ناکامی سے دو چار ہوئی ہیں جس کے بعد حکومت نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے، آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے جس کا پہلا خوف ناک نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ آزادانہ تجارت کی اجازت ملنے کے پہلے ہی روز، جمعرات کو ڈالر کی مالیت میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ڈالر ایک ہی چھلانگ میں 24.54 روپے مہنگا ہو کر 255,42 روپے کی بلند ترین شرح پر پہنچ گیا اور یہ اضافہ بنکوں کے مابین ڈالر کے لین دین میں ریکارڈ کیا گیا جب کہ کھلی منڈی میں 19 روپے کے اضافہ کے بعد ڈالر کی قیمت 262 روپے تک جا پہنچی، اس سے اگلے روز جمعۃ المبارک کو مالیاتی ہفتہ کے اختتام پر بنکوں کے مابین ڈالر کے لین دین میں مزید 7.17 روپے کا اضافہ ہوا جس سے ایک ڈالر کی قیمت تقریباً 263 روپے تک جا پہنچی اور کھلی منڈی میں یہ قیمت 268 روپے بتائی گئی ہے۔ اس طرح ڈالر مکمل طور پر بے قابو ہو چکا ہے جب کہ پاکستانی کرنسی بری طرح نڈھال ہے۔ صرف دو دنوں میں ڈالر کی قیمت میں 32.37 روپے اضافہ کے باعث درآمد و برآمد کے کاروبار سے وابستہ صنعتکار، تاجر اور سرمایا کار چکرا کر رہ گئے ہیں، صرف ان دو دنوں میں ملکی قرضوں کے بوجھ میں چار ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو گیا جب کہ حکومت کی ہدایات کی روشنی میں بنکوں کی طرف سے پانچ ہزار ڈالر سے زائد کی ایل سی کھولنے سے انکار کے سبب اس وقت سات ہزار سے زائد کنٹینر درآمدی سامان سے برے ملکی بندرگاہوں پر کلیرنس نہ ملنے کی وجہ سے رکے پڑے ہیں اور ایک جانب اس صورت حال کے باعث ان کنٹینرز میں پڑی روز مرہ استعمال کی کئی اشیاء کے خراب اور ضائع ہونے کا شدید خطرہ ہے تو دوسری جانب ملک میں ان اشیائے ضروریہ کی قلت کے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں، اس کا تیسرا اثر ان کی اندرون ملک عام صارفین کے لیے قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ اور مہنگائی کے بے لگام ہونے کی شکل میں سامنے آ رہا ہے…!
نازک معاشی صورت حال میں ملکی خزانے پر بیرونی ادائیگیوں کے دبائو میں مسلسل اضافہ بھی حالات کو مزید گھمبیر اور نازک تر بنا رہا ہے گزشتہ ایک ہفتے میں ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 92 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی مزید کمی ہوئی ہے، جس کے بعد اسٹیٹ بنک کے پاس زر مبادلہ کے ذخائر پچھلے 9 برس کی کم ترین سطح پر آ گئے ہیں اور قومی خزانے میں ان کی تعداد صرف 3.67 ارب ڈالر رہ گئی ہے جب کہ دیگر تجارتی بنکوں کے پاس پانچ ارب 77 کروڑ 48 لاکھ ڈالر موجود ہیں یوں ملک بھر میں مجموعی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب 45 کروڑ 32 لاکھ ڈالر رہ گئے ہیں، سرکاری ذخائر سے بمشکل تین ہفتوں کی درآمدات کی ادائیگی ممکن ہے۔ ملکی معیشت کی اس بگڑتی اور قابو سے باہر ہوتی صورت حال میں حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا اعلان کر دیا ہے کیونکہ ہمارے ماضی کے طرز عمل کے پیش نظر دوست ممالک نے بھی کسی قسم کی مدد کرنے سے قبل آئی ایم ایف کے پروگرام میں واپسی کو لازم قرار دے دیا تھا۔ اس طرح ملک کے ناہندہ ہونے کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا تھا جس کو بھانپتے ہوئے حکومت نے ہنگامی اقدامات پر توجہ مبذول کی ہے جن سے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور معاہدہ کے امکانات دکھائی دینے لگے ہیں اگر یہ معاہدہ ہو جاتا ہے تو نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ دیگر عالمی اداروں اور دوست ممالک سے قرضوں کا حصول ممکن ہو جائے گا اور بیرونی ادائیگیوں کے لیے ڈالر دستیاب ہو سکیں گے…!
سابق وزیر اعظم عمران خاں اور جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق بار بار نازک معاشی حالات اور نادہندہ قرار پانے کے خدشات کا اظہار کر رہے تھے مگر حکمرانوں کا اصرار تھا کہ یہ محض منفی پروپیگنڈا ہے اور ملک کے نادہندہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں تاہم اب خود حکومت کے ماہرین اور بین الاقوامی معاشی تجزیہ نگاروں نے بھی نادہندگی کے خدشات کی تائید کر دی ہے حکومت کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین عاصم احمد نے اگلے روز پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال بہت نازک ہے، ہمیں آمدن میں کمی کا سامنا ہے جس پر قابو پانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں،اس اثناء میں برطانوی معاشی جریدے ’’فنانشل ٹائمز‘‘نے اپنے اقتصادی جائزے میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے، پاکستان نے بین الاقولامی فضائی کمپنیوں کے ڈالرز روک رکھے ہیں جس کے سبب پاکستان واجب الادا فنڈز روکنے والے ممالک میں سرفہرست آ گیا ہے، ان حالات میں حکمرانوں کی جانب سے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کو تسلیم کرنا مجبوری بنا کر پیش کیا جا رہا ہے مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم موجودہ بدحالی کو آئی ایم ایف کی شرائط اور ہدایات پر عمل درآمد کے باوجود پہنچے ہیں مگر اب پھر اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے جا رہے ہیں جس کے سبب بیماری ہمارا مقدر بنی ہے۔ یہاں یہ استفسار بھی شاید بے جا نہ ہو گا کہ کیا دنیا میں کسی ایسے ملک کی مثال پیش کی جا سکتی ہے، آئی ایم ایف کے قرضوں اور اس کی ہدایات پر عمل کرنے کے بعد جس کی معیشت نے اقتصادی بحرانوں سے نجات پائی ہو؟ وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار جو بہت بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ پاکستان تشریف لائے تھے مگر ان کے یہ تمام دعوے بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں تو اب ان کا ارشاد ہے کہ پاکستان اللہ تعالیٰ نے بنایا تھا وہی اس کے حالات درست کرے گا۔ جی ہاں، اس کو کہتے ہیں کہ دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا۔ مگراہم سوال یہ ہے کہ آپ تو اللہ اور رسولؐ سے کھلی کھلی جنگ، سودی نظام کو جاری رکھنے پر مصر ہیں، ایسے میں کیا اللہ تعالیٰ سے مدد اور حالات کی بہتری کی توقع رکھنا درست طرز عمل ہو سکتا ہے؟
جنگ رہے اور امن بھی ہو…!
کیا یہ ممکن ہے تم ہی کہو؟