جامعہ کراچی: ریسرچ سینٹرز انسٹی ٹیوٹس اساتذہ، آفیسرز و ملازمین کا احتجاجی جلسہ

596

کراچی: جامعہ کراچی میں ریسرچ مراکز کے اساتذہ، ملازمین، افسران کا احتجاجی اجتماع آرٹس آڈیٹوریم میں منعقد ہوا  جس میں انسٹی ٹیوٹ کے ملازمین کے ساتھ ساتھ جامعہ کراچی کے ملازمین افسران و اساتذہ نے بھرپور شرکت کی جب کہ مادرعلمی کے منتخب نمائندگان انجمن اساتذہ آفیسرز ایسوسی ایشن اور ایمپلائز ویلفیئر ایسوسی ایشن کی قیادت نے بھی شریک ہوکر خطاب کیا۔

مقررین نے اظہار خیال کرتے ہوئے چارٹرڈ آف ڈیمانڈ کے حصول پر زور دیا۔  اس موقع پر مطالبات کیے گئے کہ جامعہ کراچی اور انسٹی ٹیوٹ کے قوانین کو یکساں کیا جائے، تنخواہ کی ادائیگی کو بروقت یقینی بنایا جائے۔ (بمع ہاوس سیلنگ کے)، 60 سال سے زائد عمر کی تعیناتی غیر قانونی ہے، لہٰذا  قوانین کو پامال نہ کیا جائے۔

شرکا نے مزید مطالبات کیے کہ انسٹی ٹیوٹ اور جامعہ میں عرصہ دراز سے اساتذہ کرام کے رُکے ہوئے سلیکشن بورڈ کو جلد منعقد کیا جائے ، انسٹی ٹیوٹ میں خوف و ہراس کی فضا کو ختم کیا جائے اور ذاتی اجارہ داری کا خاتمہ کیا جائے علاوہ ازیں انسٹی ٹیوٹ کے ملازمین بچوں کو بھی جامعہ کے قوانین کے تحت فیسوں سے مستثنا کیا جائے۔

احتجاجی جلسے کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر ریاض احمد نے ادا کیے جبکہ مقررین میں ڈاکٹر فیض محمد میرین بیالوجی ۔ سفیر محمد ایچ ای جے ۔ محمد طاہر بٹ پاکستان اسٹڈی سینٹر ۔ نوید ملک صاحب میرین بیالوجی ۔ محمد صفدر کبجی  شام تھے۔

مقررین نے چارٹرڈ آف ڈیمانڈ کے ساتھ ساتھ انسٹی ٹیوٹس میں جاری اقربا پروری۔لاقانونیت، ملازمین کے استحصال اور مالی بے ضابطگیوں پر روشنی ڈالی۔ دیگر مقررین میں جامعہ کراچی کے انجمن اساتذہ کے نائب صدر غفران عالم ، سینٹ ممبر پروفیسر ڈاکٹر منصور احمد(سابقہ رکن سنڈیکیٹ) ، ڈاکٹر ذیشان اقبال (رکن کٹس کونسل)، پروفیسر ڈاکٹر ثمرسلطانہ(سابقہ چیرپرسن سیاسیات)، جلیس احمد قاضی(آفیسر یونٹی)،  منیر احمد بلوچ(یونائیٹد آفیسرز)، ثناء اللہ (یونائیڈ آفیسرز) افتخار احمد(انصاف پسند گروپ)نے  خیالات کا اظہار کیا  جبکہ اختیار عباس (یونائیڈ آفیسرز)، پروفیسر ڈاکٹر شاہ علی القدر (سابقہ صدر کٹس و رکن سنڈیکیٹ)، وقار علی (ملازمین مشترکہ گروپس)، اشفاق احمد(ملازمین مشترکہ گروپ)نے اظہار یکجہتی کیا۔

تمام شرکا نے بالخصوص انسٹی ٹیوٹ اور بالعموم جامعہ میں قانون کی بالادستی پر زور دیا جبر و استحصال کے خاتمہ اور ہراساں کیے جانے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ آخر میں طے ہوا کہ آج اور ابھی چارٹرڈ آف ڈیمانڈ شیخ الجامعہ کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ اس موقع پر ایک چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری دی گئی جس میں نکات شامل کیے گئے کہ تمام سینٹرز و انسٹی ٹیوٹس میں تنخواہ اور ہائوس سیلنگ کی ادائی یکم تاریخ کو لازمی ادا کی جائے۔ ہاؤس سیلنگ کی پچھلی ادائی فوری کی جائے۔

چارٹر آف ڈیمانڈ کے مطالبات میں یہ نکات بھی شامل کیے گئے کہ تمام اساتذہ و افسران کے 10 برس سے سلیکشن بورڈ نہیں ہوا ان کے سلیکشن بورڈ اور سپورٹنگ اسٹاف کی سلیکشن کمیٹی کا انعقاد کیا جائے اور ہر سینٹر کے بورڈ آف گورنر کا فوری انعقاد کیا جائے۔ حاضر سروس مستقل ڈائرکٹر تمام سینٹرز و انسٹی ٹیوٹس میں تعینات کیے جائیں۔

مزید یہ کہ ملازمین کے بچوں کو تعلیمی وظائف جامعہ کراچی کے دیگر ملازمین کی طرح یکساں فراہم کیا جائے،  میڈیکل بلز کے ایریز فوری ادا کیے جائیں، وہ قوانین لاگو کیے جائیں جو یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق ہوں ۔ خوف و ہراس کے ماحول کا خاتمہ کیا جائے، ذاتی اجارہ داری ختم کی جائے، قوانین کا یکساں اطلاق کیا جائے، حاضری کے نام پر اظہار رائے اور تنظیم سازی پر پابندی ختم کی جائے اور کم از پانچ سال کا غیر جانبدار اور شفاف آڈٹ ایک کمیشن کے ذریعے کرایا جائے۔

چارٹر کی منظوری کے بعد تمام شرکا گروپ کی صورت میں شیخ الجامعہ کے دفتر گئے اور چارٹرڈ آف ڈیمانڈ پیش کیا اور اعلان ہوا کہ 2 فروری بروز جمعرات آرٹس آڈیٹوریم  جامعہ کراچی میں دوبارہ یکجا ہونگے اور بھرپور تعداد میں اپنی شرکت کو یقینی بناتے ہوئے آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کیا جائے گا اور عمل پیرا ہونگے تاکہ مسائل کو حل کیا جائے اور ملازمین یکسوئی کے ساتھ اپنی مادرعلمی کی خدمت کرسکیں ۔