آئی ایم ایف پھندا

445

وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ آپ کی تمام شرائط کو ماننے کے لیے تیار ہیں اور نویں جائزے کے لیے پروگرام مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو مشکلات سے نکالنے اور ملک و ریاست کو بچانے کے لیے اپنی سیاسی کمائی قربان کرنے کے لیے تیار ہوں۔ انہوں نے یہ بات نوجوانوں کے قرضہ اسکیم کی تقریب اجرا سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کا بیان اس بات کا اعلان ہے کہ انہوں نے آئی ایم ایف اور امریکا سے رعایتیں حاصل کرنے کے لیے جو کوششیں کی تھیں وہ ناکام ہوگئی ہیں، کوششیں تو کیا تھیں وہ اپنے خاندان کے پس منظر اور عالمی طاقتوں کی نظر میں قبولیت کے پیش نظر اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ان کی درخواست کو پزیرائی دی جائے گی۔ ویسے بھی وہ وزیراعظم بننے سے قبل قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے سابق حکومت کا تمسخر اُڑا چکے تھے اور یہ کہتے تھے کہ گداگر کے پاس آزادی اور اختیار نہیں ہوتا۔ یعنی ان کی ہمیشہ سے یہ رائے ہے کہ عالمی طاقتوں کے سامنے کھڑا ہونے سے گریز کیا جائے، حکومت کا یہ بھی خیال تھا کہ چین، سعودی عرب اور عرب امارات جیسے ملکوں کی مدد سے ریلیف حاصل ہوجائے گا لیکن انہیں اپنے دوستوں کی جانب سے بھی یہی پیغام ملا کہ جب تک آئی ایم ایف کی جانب سے اشارہ نہیں ملے گا پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی جاسکے گی۔ صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام عملاً ملک و قوم کے لیے پھانسی کا پھندا بن گیا ہے۔ اور سزائے موت کو عمر قید میں بدلنے کا نسخہ راہ نجات بنادیا گیا ہے۔ اس وقت ملکی معیشت کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہ بنادیا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان کے پاس درآمدات کے لیے ڈالر نہیں ہیں۔ ڈالر کی قیمت میں بینکوں کے ساتھ نرخ الگ ہیں اور کھلی منڈی میں الگ، کھلی مندی بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے جس کا ایک حصہ بلیک مارکیٹ کا بھی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام اسی وقت مکمل ہوگا جب ڈالر کے ریٹ کا فرق ختم ہوگا۔ ڈالر کے ریٹ میں کمی اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کو حکمرانوں کی جانب سے سخت اقدامات کا نام دیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کو حکومت کی جانب سے شرائط مان لینے کا پیغام دینے کے ساتھ اس کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں وہ انتہائی ہولناک ہیں۔ منگل کو اس حوالے سے وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف کے درمیان آن لائن مذاکرات ہوئے جس کے متعلق بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف سے بااصرار درخواست کی گئی ہے کہ بورڈ جلد سے جلد پروگرام کو بحال کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کو ماننے کا پیغام دینے کے لیے ڈالر کو آزاد کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ اب بینک بھی کھلی منڈی کے مطابق ڈالر کے سودے کریں گے۔ اس طرح درآمدات کی لاگت میں مزید اضافہ ہوگا، بلکہ نرخوں کا یقینی تعین بھی ہوسکے گا۔ اس بارے میں آئی ایم ایف زدہ منی بجٹ قوم پر مسلط کرنے کی تیاریاں کرلی گئی ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط کوئی خفیہ نہیں ہیں بلکہ ذرائع ابلاغ میں نشرو شائع ہوچکی ہیں۔ تازہ تفصیلات کے مطابق آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرادی گئی ہے کہ ملک میں جلد ہی گیس مہنگی کردیں گے، پٹرول لیوی بھی بڑھا رہے ہیں جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ 50 روپے فی لٹر پٹرول پر ٹیکس کا اضافہ کیا جائے۔ آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ یکم جولائی 2022ء سے ہوگا، گیس کے شعبے کا گردشی قرض بھی ختم کیا جارہا ہے۔ پٹرولیم لیوی بھی مرحلہ وار بڑھائی جارہی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے وزارت خزانہ میں نئے ٹیکس لگانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ جن میں نان فائلرز کی بینک ٹرانزیکشن پر ودہولڈنگ ٹیکس نافذ کرنے کا منصوبہ ہے، بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ سب سے بڑی مصیبت کی جڑ ڈالر کے ساتھ منسلک معیشت اور اس کے نرخوں میں جبریہ مصنوعی اضافہ ہے۔ جس نے سارے معاملات اُدھیڑ کر رکھ دیے ہیں۔ بڑی بڑی صنعتیں بھی یہ معاشی تباہی کا بوجھ اُٹھانے میں ناکام ہوگئی ہیں، صنعتوں کی بندش کا تسلسل جاری ہے۔ کراچی چیمبر کے صدر گورنر اسٹیٹ بینک کے سامنے دفاتر کی چابیاں پھینک کر خبردار کرچکے ہیں کہ ہم سے کاروبار نہیں چلتا۔ آپ ہی اسے چلائیں۔ لیکن حکومت کے معاشی منتظمین کے پاس آئی ایم ایف کے پھندے سے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس مقصد کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام بحال ہوجائے گا تو پہلے مرحلے میں ڈالر کا ذخیرہ بڑھ جائے گا، لیکن نئے قرض کو ادا کرنے کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے۔ عام لوگوں کے حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں اس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کفایت نہیں کررہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی کا طوفان قدرتی آفات سے زیادہ تباہ کاری لارہا ہے۔ حکومت کے معاشی چارہ ساز اُمید کی کوئی کرن دکھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ موجودہ اور سابق حکمران ایک دوسرے پر الزام تراشی کررہے ہیں، پاکستان کی معیشت کی تباہ حالی کے باوجود یورپ اور امریکا کے بینکوں میں پاکستانیوں کے اربوں ڈالرز موجود ہیں۔ ان کی واپسی سیاسی نعرے بازی اور تقریری مقابلوں کا موضوع تو بن جاتی ہے لیکن عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے، اور وہ کیسے نظر آئیں گے، اس لیے کہ انہیں جو کام کرنا ہے وہ پیسے انہی کی برادری کے لوگوں کے کھاتوں میں، گھروں میں، ان کی تجوریوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ چاہے وہ سیاسی حکمران ہوں، خاکی و سفید افسر شاہی ہو یا ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکیدار انہوں نے قومی وسائل کی لوٹ مار کی ہے ان کا احتساب ناممکن ہوگیا ہے۔ وزیراعظم یہ بڑھک مارتے ہیں کہ پاکستان کے جو حالات ہیں سب کو اس کی ذمے داری قبول کرنا ہوگی۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں، ہماری اور مارشل لائی حکومتیں سب شامل ہیں، 75 سال میں ہم نے جو کچھ کیا ہے اس کے نقصانات سامنے ہیں اب ایسے خطابات سے کام نہیں چلے گا۔ عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کا تباہ کن اثر ہوگا۔ کسی مزید تباہی سے بچنے کے لیے وزیراعظم اپنی ذات سے آغاز کریں اور قوم کی دولت قوم کو واپس کرنے کا اعلان کریں، اپنے تمام بینک کے کھاتوں کی تفصیلات جاری کریں۔مشکل یہی ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ خود آئی ایم ایف سے چھٹکارے میں مخلص نہیں ان کی بلا سے عوام پر بوجھ بڑھتا رہے ملک کو چلانے کے لیے وہ قرض پر قرض لیتے رہیں گے۔ اس میں کوئی استثنا نہیں ہے، سب اس کام میں لگے رہے۔ جس طرح ملک میں گردشی قرضہ مسئلہ بنا ہوا ہے اسی طرح آئی ایم ایف پاکستانی حکمرانوں کا گردشی مسئلہ ہے۔