سندھ بلدیاتی انتخابات اور پی ٹی آئی کی واپسی

455

کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ بالآخر اپنے انجام کو پہنچا۔ بلدیاتی انتخابات کا یہ مرحلہ بے پناہ پس و پیش شش و پنج اور اونچ نیچ سے گزر کر آیا۔ متعدد بار انتخابات ملتوی ہوئے کبھی بارش اور سیلاب کی وجہ سے کبھی سیکورٹی کے بہانے اور کبھی حلقہ بندیوں کے اِشکال کی بنا پر یہاں تک کہ ایم کیو ایم نے انتخابات کی رات بائیکاٹ کا اعلان کر دیا اور لوگوں کو ووٹ نہ ڈالنے کی ترغیب دی۔ قابلِ غور امر ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایسی صورتحال کبھی پیدا نہیں ہوئی مگر بلدیاتی اداروں کے قیام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ قومی سطح کی سبھی سیاسی جماعتیں جمہوری عمل کی شراکت دار ہیں مگر جمہوریت کی بنیاد کہلانے والے نظام کے لیے ان جماعتوں کی بے دلی باعث ِ حیرت ہے۔ بلدیاتی اداروں کے انتخابات سے قومی سیاسی جماعتوں کی بیزاری کی وجہ سوائے اس کے کیا ہو سکتی ہے کہ سیاسی مائنڈ سیٹ صوبائی اور قومی سیاست کے ڈھانچے میں بلدیاتی اداروں کو ناپسندیدہ شریک سمجھتا ہے اور اس کے لیے تقسیم ِ اختیارات سے گھبراتا ہے۔ اس غیر حقیقت پسندانہ سیاسی رویے نے ملک میں جمہوری نظام سیاسی قیادت عوامی حقوق اور شہری آبادی کی ترقی اور اصلاح کے معاملات کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔
بلدیاتی نمائندے کسی قوم کے لیے سیاسی قیادت کی نرسری قرار دیے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں اس نظام کی جڑیں مضبوطی سے لگنے نہیں دی گئیں؛ چنانچہ ہم حقیقی سیاسی قیادت پروان چڑھانے کے اس متبادل نظام سے محروم ہیں اور اس کا نقصان عام شہری سے لے کر سیاسی جماعتوں تک محسوس کیا جارہا ہے۔ ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں کو حقیقی لیڈر شپ کے جس بحران کا سامنا ہے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ملکی آبادی میں قریب 70 فی صد نوجوان ہیں مگر سیاسی قیادت میں نوجوانوںکا حصہ خاصا کم ہے اور جو نوجوان سیاست میں ہیں وہ بھی سیاسی تربیت کے مراحل سے کم ہی گزر کر آئے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں قیادت کے خلا کو جس انداز سے پُر کرنے کی روایت ہے وہ اپنے آپ میں غیر جمہوری طرزِ عمل ہے اور اس سے جمہوری روایت کی پاسداری کی توقع نہیںکی جاسکتی۔ ملک میں جمہوری ثقافت کو فروغ دینے کے لیے اس رویے کو تبدیل کرنا ہو گا۔ بلدیاتی انتخابات کا باقاعدہ انعقاد اور جمہوریت کی نرسری کی نگہداشت ہمارے سیاسی ماحول کو اس تبدیلی سے ہم کنار کر سکتی ہے جو معیاری جمہوریت یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔اس کے لیے بلدیاتی انتخابات کو التوا میں ڈالنے کا رویہ تبدیل کرنا ہو گا۔ جس طرح اسلام آباد میں وفاقی حکومت نے یونین کونسلوں کی تعداد بڑھانے کو جواز بنا کر بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری ہونے کے بعد بھی انتخابات نہیں ہونے دیے یا کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی انتخابات کو مزیدالتوا میں ڈالنے کے جو حیلے کیے گئے یہ رویہ جمہوری سوچ کا آئینہ دار نہیں۔ اگر اسلام آباد میں آبادی میں اضافہ ہوا تو حکومت نے یونین کونسلوں کی تعداد بڑھانے کا عمل بروقت کیوں مکمل نہیں کر لیا یا کراچی میں حلقہ بندی پر جو اعتراض جڑے گئے اس معاملے میں کو کیوں بروقت سلجھایا نہیں جا سکا؟ سیاسی جماعتوں کو یہ سارے کام بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد ہی کیوں یاد آتے ہیں؟ بلدیاتی انتخابات کے معاملے میں سیاسی جماعتوں کو ذمے دار رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ بلدیاتی انتخابات آئین پاکستان کا تقاضا ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 140اے قرار دیتا ہے کہ ہر ایک صوبہ مقامی حکومت کا نظام قائم کرے گا اور سیاسی انتظامی اور مالیاتی ذمے داری اور اختیارات مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرے گا۔ آئین کی اس شق پر خوش دلی سے عملدرآمد یقینی بنا کر ملک عزیز میں سیاسی جمہوری بہتری لائی جا سکتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور نگران سیٹ اَپ کے لیے قومی اسمبلی جانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ گزشتہ برس اپریل میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے ساتھ ہی پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے اجتماعی استعفوں کا اعلان کر دیا تھا مگر استعفوں کا یہ معاملہ بذات خود ایک بڑا سیاسی تنازع بن گیا اور معاملات عدالتوں تک گئے۔ اسی مقدمے کے دوران22 دسمبر کو چیف جسٹس آف پاکستان نے پی ٹی آئی کو پارلیمان میں واپس جاکر اپنا کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا کہ عوام نے انہیں پانچ سال کے لیے منتخب کیا تھا اور پارلیمان میں کردار ادا کرنا ہی ارکان پارلیمنٹ کا اصل فریضہ ہے۔گزشتہ برس جولائی میں پی ٹی آئی کی جانب سے نیب ترامیم کے خلاف حکم امتناع کی درخواست سماعت کرتے ہوئے بھی عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی کو یہی صائب مشورہ دیاکہ منتخب نمائندگان کی حیثیت سے پارلیمان میں یہ معاملات اٹھائیں کہ پارلیمان کا کوئی متبادل نہیں۔ جمہوری نظام میں حزبِ اختلاف کا کردار توازن اور محاسبے سے عبارت ہے۔ حزب اختلاف کا فریق جہاں حکومت کے کام کاج پر کڑی نظر رکھتا ہے وہیں درست فیصلوں میں رہنمائی بھی کرتا ہے۔ ترقی یافتہ جمہوری معاشروں میں حزبِ اختلاف اپنی یہ ذمے داری پوری توجہ اور جانفشانی سے ادا کرتی ہے برطانیہ کی حزبِ اختلاف تو متبادل کابینہ بھی تشکیل دیتی ہے مگر ہمارے ہاں سیاسی دلچسپی کا محور حکومت سازی تک محدود ہے؛ چنانچہ حزبِ اختلاف کے مفید اور موثر کردار کی عدم موجودگی سے جو خلا پیدا ہوتا ہے اس کے اثرات پوری شدت کے ساتھ ہمارے ہاں موجود ہیں۔ اس کی بہت واضح صورت موجودہ حکومت کے دور میں دیکھنے میں آئی جسے پارلیمان میں موثر حزبِ اختلاف کا ساتھ نہیں مل سکا۔
ہر چند کہ مخالف سیاسی جماعت پارلیمان سے باہر پوری آب و تاب کے ساتھ متحرک رہی مگر یہ کردار حکومتی سطح پر قومی مفاد میں نہیں ڈھالا جاسکا نتیجے کے طور پر اس سال بھر میں ملکی معیشت پیداوار برآمدات سماجی اطمینان اور احساسِ تحفظ غرض تنزل کی ہمہ گیر صورت نظر آتی ہے۔ اگر مخالف سیاسی جماعت پارلیمان کے اندر رہ کر اپنا کردار ادا کرتی تو ممکنہ طور پر سیاسی بے یقینی کی صورتحال مختلف ہوتی۔ حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی قومی اسمبلی کو خیر باد کہہ دینے کا فیصلہ بادی النظر میں پی ٹی آئی کے لیے مثبت سیاسی مضمرات کا حامل بھی نہیں لگتا اور اگر ایسا ہے بھی تو یہ سیاسی مفاد کسی جماعت کو عوام کے مینڈیٹ کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں دیتا؛ چنانچہ اس سال بھر کے دورانیے میں اگر ملکی مسائل میں اضافہ ہوا ہے تو اس کی ذمے داری میں حزبِ اختلاف کی جماعت کو بھی اپنا حصہ قبول کرنا چاہیے۔ اب پی ٹی آئی اگر قومی اسمبلی میں کردار ادا کرنے کا عندیہ دے رہی ہے تو یہ سراسر سیاسی مفاد کی خاطر اٹھایا جانے والا قدم دکھائی دیتا ہے حالانکہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں پی ٹی آئی کو بہت پہلے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے بڑھنے کی ضرورت تھی۔ سیاسی دماغ لگانے کے لیے لوہا گرم ہونے کا انتظار کرتے ہیں مگر یہاں جو کچھ ہوا اس میں ذمے داریوں سے فرار کے منفی اثرات بڑے واضح ہیں۔ آج پاکستان ایک برس پہلے کی پوزیشن سے بھی کہیں پیچھے جاچکا ہے۔ ملک دیوالیہ پن کے خطرے سے دوچار رہا عوام مہنگائی کی چکی میں پستے چلے گئے پاکستان کی صنعتی پیداواری صلاحیت دم توڑ گئی مگر ہماری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے نبرد آزما رہیں۔ ملک کے ان ناگفتہ بہ حالات پر پارلیمان کے اندر سوال اٹھتے تو شاید کوئی حل بھی نکل آتا مگر بد قسمتی سے یہاں سب کچھ پارلیمان کے باہر ہوتا رہا۔ اب جبکہ خرابی کا عمل کافی شدت اختیار کر چکا ہے پی ٹی آئی کے لیے عدم اعتماد کی تحریک اور نگران سیٹ اَپ کے سوا پارلیمان میں دوسرا کوئی رول باقی نہیں رہ گیا۔