نیا تماشا شروع

533

ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اگلے چند روز میں پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے انتخابات کا شیڈول جاری ہوجائے گا اور کچھ دن کے لیے سکون ہوجائے گا لیکن اس ملک کے سیاسی نظام پر مسلط طاقت کے مراکز یہ چاہتے ہی نہیں کہ ملک میں کہیں سکون اور نظام معمول پر آسکے۔ بلکہ ہر چند روز بعد نیا شوشا… نیا ہنگامہ کھڑا کردیا جاتا ہے اور قوم کو اس کے تماشے میں الجھا دیا جاتا ہے۔ چناں چہ توقع کے مطابق پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کے تقرر کے ساتھ ہی نیا ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ انہوں نے حلف اٹھالیا اور سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ پلی بارگین کرنے والے سے انصاف کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ میرا قریب ترین رشتہ دار نگراں وزیراعلیٰ کیسے بن سکتا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف عدالت جائیں گے۔ اب عدالت قابل سماعت ہونے نہ ہونے پر کئی دن لگائے گی پھر حکم امتناع کی درخواست آئے گی اور جو ممکن طریقہ وقت ضائع کرنے کا ہوسکتا ہے دونوں طرف کے وکیل اسے استعمال کریں گے۔ عمران خان نے بھی سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے ازلی دشمن کو نگراں تعینات کیا گیا ہے۔ ان سب کو ایکسپوز کروں گا۔ فواد چودھری نے بھی سڑکوں پر نکلنے کا عندیہ دیا ہے اور تازہ اطلاع یہ ہے کہ پورے ملک میں اس معاملے پر احتجاج ہوگا۔ مسئلہ صرف نگراں وزیراعلیٰ کا نہیں بلکہ موجودہ تین جماعتوں میں لڑائی صرف یہ ہے کہ ہم حکومت میں ہوں تو اسمبلی، سینیٹ میں ٹھیک اور اگر ہم باہر ہوں تو سب خراب ہماری پسند کا آدمی آگیا تو ٹھیک دوسرے کی پسند کا آگیا تو سب غلط، آخر ہمارا حکمران طبقہ کب اس قسم کے جاہلانہ طرز عمل کو ترک کرے گا۔ عدالتیں کیا کررہی ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں اس سے قبل قومی اسمبلی میں اسپیکر کے مسئلے پر بلوچستان کے مسئلے پر سینیٹ چیئرمین کے مسئلے پر، تقریباً ہر معاملے میں جس کو اختیار اور طاقت حاصل ہو وہ اپنے مطلب کے فیصلے کرتا یا کرواتا رہا ہے۔ ان لوگوں کی وجہ سے پاکستانی سیاست بدنام ہوتی ہے اور ملک بدنام ہوتا ہے لیکن ان کا مرکز و محور صرف اقتدار ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی نے دوسری جماعتوں کے ارکان توڑے اور اپنی پارٹی مضبوط کرلی لیکن جب ان کے ارکان توڑے گئے تو یہ غیر جمہوری عمل ہوگیا یہی حال مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا ہے جب وہ دوسروں کے لوٹے خریدتے ہیں تو انہیں خوشی ہوتی ہے لیکن جب ان کے ارکان لوٹا بنتے ہیں تو انہیں تکلیف ہوتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ قانون اور آئین کی پابندی کے بجائے اس کی پامالی پر یقین رکھتے ہیں اور ہر قت یہی عمل جاری رہتا ہے نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کے مسئلے پر جو کچھ ہورہا ہے اس کا مقصد یہ نہیں کہ اعتراض کرنے والے یا تقرر کرنے والے حق پر ہیں بلکہ تقرر کرنے والے انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج چاہتے ہیں اور اختلاف اور اعتراض کرنے والے بھی انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج چاہتے ہیں۔ محسن نقوی پر پلی بارکین کا الزام کا ذکر تو ایسے کیا جارہا ہے جیسے ساری سیاست میں یہ پہلا فرد ہے جس نے کوئی پلی بارکین کی ہے اور جو لوگ مجرم قرار پانے کے باوجود وزیراعظم سینیٹر وزیر اور سب کچھ بن جاتے ہیں یہ جو حکمران آج کل ہیں ان کے خلاف ریفرنس کیسے دھڑا دھڑ واپس ہورہے ہیں قانون ایسے تبدیل ہورہے ہیں کہ صبح کا چور شام کو معزز ہوجاتا ہے۔ یہی کام پی ٹی آئی بھی کررہی تھی اس کے دور میں اس کے لوگوں کے خلاف ریفرنس اور کیس دبائے جارہے تھے یا ختم کیے جارہے تھے ان کے خیال میں وہ صحیح تھا۔ آج کے حکمرانوں کے نزدیک وہ صحیح ہے جو وہ کررہے ہیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن، عدالتیں اور قومی ادارے کیا کررہے ہیں عدالتوں میں صرف پیشیاں اور سماعتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اب نگران وزیراعلیٰ کے معاملے پر بھی قوم کا وقت ضائع ہوگا۔ آخر کون سا ایسا فرد نگراں بنایا جائے گا جو ملک میں ایماندار ترین ثابت ہوجائے۔ یہاں تو جو آیا لایا جاتا ہے وہ ایک سے بڑھ کر ایک کرپشن میں لتھڑا ہواہی ہوتا ہے مسئلہ اس وقت نہیں ہوتا جب بدعنوان فرد دونوں فریقں کو اچھا لگتا ہے مرکز میں پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی حکومت آنے کے بعد اسحق ڈار، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، آصف زرداری، خواجہ آصف سمیت درجنوں لیڈروں کے خلاف مقدمات ختم ہوگئے کتنے ہی پلی بارگین والے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔ ایک طرف ان لوگوں کا رویہ قومی معاملات میں ایسا ہے اور دوسری طرف مغرب میں توہین قرآن کے واقعات ہورہے ہیں۔ یہ کیا قرآن کے تقدس کے لیے اٹھیں گے ہاں اگر اس میں ان کو ذاتی منفعت نظر آئی تو ضرور ایسا کریں گے۔