آئی ایم ایف کا سخت رویہ طوفان کا پیش خیمہ؟

556

باخبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو دی گئی مطالبات کی فہرست میں کوئی نرمی کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ وزرات خزانہ کے حکام آئی ایم ایف سے مسلسل مطالبات پر نظر ثانی کی درخواست کررہے ہیں مگر آئی ایم ایف اس کو درخور اعتنا نہیں سمجھ رہا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی اپنی کوششوں میں ناکام ہو گئے ہیں اور انہیں آئی ایم ایف کے اہداف پورا کرنے کو کہہ دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کا روز بروز سخت رویہ کئی شکوک وشبہات کو جنم دے رہا ہے بالخصوص سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کے بعد اب فوج کی تعدا د میں کمی کے دوٹوک اعلان کے بعد شکوک وشبہات کے سائے مزید دراز ہوکر رہ گئے ہیں۔ حکومتی نمائندوں نے یہ تسلیم کرنا شروع کیا ہے کہ آئی ایم ایف مہنگائی بڑھا کر بھی حکومت سے خوش نہیں۔ آئی ایم ایف نے اہداف کو پورا نہ کرنے پر ناخوشی کا اظہار بھی کرنا شروع کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی ادارہ اب آسانی سے قرض کی اگلی قسط دینے کے موڈ میں نہیں۔ یہ ایک المناک اور دل خراش حقیقت ہے کہ یہ تاثر جڑ پکڑ چکا ہے کہ پاکستان نے امریکا کے دبائو پر روس سے سستا تیل لینے سے ہاتھ کھینچ لیا اور عرب ملکوں سے مہنگے داموں تیل خریدنے کا راستہ اختیار کیا۔ مہنگے تیل کی خریداری کا نتیجہ آج یہ ہے کہ عوام کی کمر مہنگائی کے نتیجے میں دوہری ہو کر رہ گئی۔ ڈیزل پٹرول کی قیمتوں کے بڑھنے کا نتیجہ زندگی کی ہر ضروری شے کی قیمت بڑھنے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ جس ملک کو اپنے عوام کو سہولتوں کی فراہمی کے لیے کوئی پالیسی مرتب کرنے اس پر عمل درآمد اور اسے کامیابی سے آگے بڑھانے کی اجازت نہ ہو اس کی آزادی نمائشی ہوتی ہے۔
روسی تیل کوئی آب ِ شفا اور نسخہ ٔ کیمیا نہیں مگر یہ آئی ایم ایف کے ہاتھوں بدحال ملکی معیشت کے لیے سانس لینے کا متبادل راستہ ہے۔ اب تو یہ بات نوشتہ ٔ دیوار بن چکی ہے۔ آئی ایم ایف کی روایتی سختی کو کم کیے بغیر عوام کو ریلیف نہیں مل سکتا۔ آئی ایم ایف ایک ایسا اژدھا ہے جو اپنے شکار کے گرد مضبوط حصار بنائے رکھتا ہے۔ یہ حصار اس قدر تنگ اور مضبوط ہوتا ہے کہ شکار کا دم اسی انداز سے گھٹتا چلا جاتا ہے۔ جب سے آئی ایم ایف پولیٹی سائز ہو کر رہ گیا اس وقت سے تو اس کا رویہ مزید بے رحم ہو گیا ہے۔ پہلے قرض دے کر تماشا دیکھتا ہے۔ اس قرض کی رقم کے شفاف استعمال پر کم ہی زور دیا جاتا ہے۔ یہی رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے واپس مڑ کر مغربی بینکوں کی زینت بن کر اور وہاں کی جائدادوں میں گردش کر کے واپس وہیں پہنچ جاتی ہے جہاں سے چلی ہوتی ہے اور قرض ادا کرنے کے لیے عام آدمی کی رگوں کا خون مختلف رنگ برنگے ٹیکسوں کے نام پر نچوڑا جاتا ہے۔ اینا کونڈا کی گرفت ڈھلی کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے متبادل ذرائع کی طرف رجوع۔ اب ثابت ہوا کہ اس کی بھاری قیمت ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کے حصار سے نکلتے ہوئے طاقتور طبقات کے پرجلنے لگتے ہیں۔
سری لنکا کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ معاشی بحران کی وجہ سے وہ اگلے چند برس میں اپنی فوج میں ایک لاکھ پینتیس ہزار کی کمی لائے گا اور 2030 میں یہ مزید ایک لاکھ فوج کم کر دی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ سر ی لنکا یہ عمل کسی خوشی سے نہیں کر رہا ہوگا بلکہ حالات اور ماہ وسال اسے اس مقام پر دھکیل کر لائے ہیں۔ ایک تو معاشی دیوالیہ پن نے سری لنکا کو اس مقام تک پہنچایا دوسرا آئی ایم ایف نے سری لنکا کی معیشت کی بحالی کے لیے فوجی اخراجات اور تعداد میں کمی کی شرط رکھی ہوگی۔ سری لنکا کے لیے وہ بیرونی خطرات کسی طور کم نہیں ہوئے جن کی وجہ سے اس ملک نے اپنی فوج کی تعداد اور استعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ ملک آج بھی دو بڑی طاقتوں چین اور بھارت کے درمیان ہے اور دونوں ملک اس پر اپنا اثر رسوخ قائم کرنے کی سرتوڑ کوششیں کرتے رہے ہیں۔ یہ ملک کئی دہائیوں تک تامل علٰیحدگی پسندوں کی متشدد کارروائیوں کی زد میں رہا ہے اور اسی دوران بھارت اس ملک میں اپنی فوج بھی اُتار چکا ہے مگر تباہ کن حملوں کے باعث بھارتی فوج کی سری لنکا میں تادیر قدم جمانے کی خواہش پوری نہیں ہوسکی تھی اور بے نیل ومرام سری لنکا سے اپنے رخت سفر باندھنا پڑا تھا۔
چین نے اپنے نئے اُبھار کے سفر میں جن ہمسایہ ملکوں کو اپنے ساتھ چلانے کا فیصلہ کیا ان میں پاکستان اور سری لنکا شامل تھے۔ یہ ممالک چین کے ساتھ چلنے پر آمادہ بھی تھے۔ چین نے ان دونوں ملکوں میں بندرگاہوں اور سڑکوں کے ذریعے بھاری سرمایہ کاری بھی کی۔ پاکستان میں گوادر تو سری لنکا میں ہمبن ٹوٹا کہ بندرگاہوں اس تعاون اور تعلق کی علامات تھیں۔ سری لنکا کے بدعنوان حکمرانوں کے ذریعے ایسی اپنائی گئیں جو اس ملک کو رفتہ رفتہ اقتصادی بدحالی کی طرف لے جانے کا باعث بنتی چلی گئیں۔ سری لنکا نے تامل ٹائیگرز کو آخری شکست دے کر دہشت گردی سے جان چھڑا ہی لی تھی اور توقع تھی کہ اس عفریت سے نجات حاصل کرنے کے بعد یہ ملک اب ترقی کا سفر طے کر ے گا مگر ’’اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے‘‘ کے مصداق سری لنکا سیاسی عدم استحکام اور اس سے بھی زیادہ معاشی بحران کا شکار ہوتا چلا گیا۔ حکمرانوں نے کوتاہ اندیشی کا مظاہرہ کرکے خاندانی سیاست اور حکومت کو فروغ دیا اور پورے پورے خاندان سرکاری خزانے سے گل چھرے اُڑانے لگے۔ عیاشیاں، منصوبہ بندی کا فقدان، بدعنوانی، خاندانوں کو قومی وسائل پر لابٹھانا ایسے اقدامات تھے جس نے سری لنکا کے معاشی بحران کو بڑھایا اور یہاں تک کہ یہ ملک اقتصادی دیولیہ پن کا شکار ہوگیا۔ عوام سڑکوں پر نکل آئے اور حکمرانوں کے محلات کو جلانے اور ان کو گاڑیوں سمیت نہروں میں بہانے لگے۔ جس کے نتیجے میں افراتفری تو بڑھ گئی مگر سری لنکا معاشی طور پر زمین بوس ہو چکا تھا۔ آئی ایم ایف نے مدد سے ہاتھ کھینچ لیا۔ چین اور بھارت دونوں دم بخود سری لنکا کر گرا پڑا دیکھتے رہے۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سری لنکا کو اس کھائی سے نکلنے کے لیے مجبوری او رلاچاری کے فیصلے کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ جن میں فوج کی تعداد میں کمی کا اعلان بھی شامل ہے۔ یہ صورت حال پاکستان کے لیے لمحہ فکر ہے۔ پاکستان اور سری لنکا دونوں چین کے قریب اور بھارت سے دوری رکھتے ہیں اور دونوں کی فوجی طاقت بہت سوں کو کھٹکتی رہی ہے۔ دونوں معاشی طور پر کمزور ہو چکے ہیں۔ اس لیے پاکستان کو اپنے موجودہ معاشی بحران پر فوری قابو پانا ہوگا اور اگر یہ بحران بڑھ گیا تو آئی ایم ایف کی زنبیل سے کئی رنگ برنگے مطالبات نکل سکتے ہیں۔ جن میں فوج کی تعداد میں کمی، ایٹمی پروگرام کا خاتمہ اور کشمیر پر بھارت کے ساتھ ایسی مفاہمت کہ جس میں کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرلیا جائے بھی شامل ہو سکتے ہیں۔