سعودی عرب اور خلیجی ملکوں میں دس ہزار جھیلیں

500

اللہ تعالیٰ کے آخری رسول سیدنا محمد کریمؐ کی انکشاف انگیز حدیث شریف کالم کے آخر میں درج کریں گے تاکہ ایمان کی لذت اور مٹھاس تازہ بتازہ رہے۔ آغاز ہم اس انسانی جدوجہد سے کر رہے ہیں جو کئی سال کے غور و فکر اور تحقیق سے سامنے آئی ہے۔ ’’یورپین ریسرچ کونسل‘‘ نے ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا جس کا بجٹ 2.34 ملین یورو تھا۔ مقصد یہ تھا کہ گزشتہ دو ملین یعنی 20لاکھ سال سے ’’جزیرۃالعرب‘‘ کے ملکوں میں جو تبدیلی آئی ہے‘ اس کا جائزہ لیا جائے۔ سعودی عرب کا ادارہ ’’سعودی کمیشن ٹورازم اینڈ نیشنل ہیریٹیج‘‘ بھی اس جدوجہد میں شامل ہو گیا۔ امریکا کی بوسٹن یونیورسٹی بھی اس کوشش میں ساتھ دینے لگتی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے سعودی محکمے کے ساتھ مل کر مشترکہ تحقیق کا آغاز کر دیا۔ خلیجی ممالک عمان، یمن، متحدہ عرب امارات، بحرین اور قطر بھی دلچسپی لینے لگ گئے۔ اردن بھی دلچسپی سے پیچھے نہیں رہا۔ مجموعی طور پر اس پروجیکٹ کی نگرانی پروفیسر مائیکل پٹرا جلیا (Michael Petraglia) نے کی جن کا تعلق آکسفورڈ یونیورسٹی کے اسکول آف آرکیالوجی سے ہے۔ ویسے اس میدان میں امریکا کے ایک اور ادارے Max Planck Institute کی جدوجہد بھی قابلِ قدر ہے۔
قارئین کرام! مندرجہ بالا تمام اداروں کی مشترکہ جدوجہد کا حاصل یہ ہے کہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں دس ہزار سے بھی زیادہ جھیلیں ہیں۔ ’’ربع الخالی‘‘ کے صحرا میں ریت کے نیچے دریائوں کے سلسلے ہیں۔ سب سے بڑے دو دریا ہیں؛ ایک جنوب میں ہے اور دوسرا شمال میں ہے۔ ان دونوں دریائوں کی چوڑائی لگ بھگ آٹھ کلو میٹر تک ہے۔ ہر دریا کی لمبائی ایک ہزار کلو میٹر تک ہے۔ جھیلیں اتنی بڑی بڑی ہیں کہ بعض کی گہرائی 100 میٹر تک ہے۔ نہریں بھی کافی تعداد میں ہیں۔ معاون دریا بھی بکثرت ہیں۔ امکان یہ نظر آتا ہے کہ جزیرۃ العرب میں یہ سب کچھ نئے سرے سے ظاہر ہو جائے گا۔ اس حوالے سے جامع رپورٹ سعودی عرب کے ایک جریدے میں شائع ہوئی ہے۔ معروف میگزین ’’جیالوجی‘‘ نے لکھا ہے کہ جزیرۃ العرب مستقبل میں یورپ جیسا سرسبز ہونے جا رہا ہے۔ بی بی سی لندن نے مندرجہ بالا ریسرچ پر دنیا بھر کی زبانوں میں انسانیت کو آگاہ کیا کہ سعودی عرب اور خلیجی ملکوں کے علاقے ایسے حالات سے گزر چکے ہیں کہ جب یہ علاقے نباتات کی کثرت سے ڈھلے ہوئے اور سرسبز و شاداب تھے، وہاں نہریں چل رہی تھیں۔ امریکا کے خلائی ادارے ’’ناسا‘‘ نے آگاہ کیا ’’تاریخ میں یہ انکشاف پہلی بار ہو رہا ہے‘‘۔ جی ہاں! عرب سرزمین سے ہاتھیوں‘ دریائی گھوڑوں‘ مگر مچھوں اور سمندری گھونگھوں (Mollusca) وغیرہ کے ڈھانچے اور باقیات ملی ہیں۔ ریت کی گہرائیوں میں مچھلیوں کے ہزاروں سال پرانے ڈھانچے ملے ہیں۔ یہ اس حقیقت کی شہادت ہے کہ یہ علاقے کسی زمانے میں جھیلوں، دریائوں، ندی، نالوں، آبشاروں اور شادابیوں سے مالا مال تھے۔
محققین نے واضح طور پر اعلان کیا کہ:
Satellite images have revealed that a network of ancient rivers once coursed their way through the sand of the Arabian Desert.
سیٹلائٹ تصاویر نے یہ حقیقت آشکار کی ہے کہ عرب صحرائوں کی جگہ کبھی یہاں قدیمی دریائوں کا ایک نیٹ ورک بہتا تھا۔ جی ہاں! امریکا کی ’’نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘‘ کے سائنسدانوں اور دیگر ریسرچرز نے واضح طور پر کہا ہے ’’ہم نے سعودی عرب کی سرزمین کو نظر انداز کر کے غلطی کی ہے۔ یہ تو سب سے پرانی انسانی تہذیب کا مرکز ہے۔ یہاں پانچ لاکھ سال پہلے دریائوں، نہروں اور جھیلوں کا نیٹ ورک تھا۔ بوسٹن یونیورسٹی نے ٹریس کیا ہے اور مدینہ منورہ کے قریب ایک خشک دریا کا پتا چلا ہے جو مدینہ منورہ کے قریب حجاز کے پہاڑی سلسلے سے شروع ہوتا ہے اور شمال مشرق سے ہوتا ہوا کویت تک جاتا ہے۔
محترم فاروق الباز‘ جو سعودی عرب کے باشندے ہیں‘ بوسٹن یونیورسٹی کے ریسرچر ہیں انہوں نے مندرجہ بالا بات ناسا کی لی گئی سیٹلائٹ تصاویر کو مدنظر رکھ کر بتائی۔ یاد رہے کہ یہ دریا وادی الباطن اور وادی الرومہ کے نظام اور تسلسل سے مدینہ منورہ کے قریب سے گزرتا تھا۔ چنانچہ اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ
Middle East Deserts were once home to rivers lush green grassland with hippos. مشرقِ وسطیٰ کے صحرا ایک زمانے میں دریائوں اور بہت زیادہ سبزے کے گڑھ ہوا کرتے تھے جہاں دریائی گھوڑے ہوتے تھے۔
قارئین کرام! ماہرین اب پکار اٹھے ہیں کہ سعودی تہذیب مصری تہذیب سے بھی کہیں زیادہ پرانی اور انسانی ورثے سے مالا مال ہے۔ مستقبل میں حقائق مزید سامنے آئیں گے اور دنیا کو حیران کرتے جائیں گے۔ عرب تہذیب بہت پرانی انسانی تہذیب کا مرکزہے۔ جزیرۃالعرب کی جھیلوں کے کناروں کے‘ جو سیٹلائٹ کے ذریعے‘ آثار ملے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ یہاں 18لاکھ سال قبل سے لے کر ڈھائی لاکھ سال قبل تک انسان آباد رہے ہیں۔ سعودی کمیشن ٹورازم اینڈ نیشنل ہیرٹیج کے ڈپٹی ڈائریکٹر علی ابراہیم الغابان نے بتایا کہ موجودہ انسانوں کے آبائو اجداد نے عرب سرزمین کو ایک لاکھ پچیس ہزار سال قبل آباد کیا تھا۔ اس کا ثبوت ان کے ملنے والے ڈھانچے ہیں جو Anatomically ثابت کرتے ہیں کہ آج کا انسانی ڈھانچہ اور ان کا ڈھانچہ ایک جیسا ہے۔ مستقبل میں مزید پرانے ڈھانچے ملیں گے تو مزید چیزیں واضح ہوتی جائیں گی۔
18 اگست 2016 ء کو ڈیلی الریاض نے ایک رپورٹ دی تھی کہ موجودہ انسان کے آبائو اجداد میں سے ایک کی پرانی ہڈیاں جو سعودی عرب میں تبوک کے مقام سے ملی ہیں‘ وہ 90 ہزار سال پرانی ہیں۔ جی ہاں! پانچ سال بعد 2021ء میں مسٹر مائیکل نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ عرب سرزمین میں انسان گزشتہ چار لاکھ سال سے آباد چلا آ رہا ہے۔ سائنسدانوں نے اب تسلیم کر لیا ہے کہ عرب سرزمین پر ابتدائی انسان (Early Humans) آباد تھے۔ یہاں کھلے پانیوں کے کنویں بھی ملے ہیں۔ جانوروں کے خشک ڈی این اے لیے گئے تو تحقیق سے پتا چلا کہ ان کی اولادیں آج کے زمانے میں بھی پائی جاتی ہیں۔ ان جانوروں میں شتر مرغ (Ostrich)، سیدھے سینگوں والا Oryx، پہاڑی بکرا (Ibex)، لگڑ بگا (Hyena) اور بجو (Badger) شامل ہیں۔ قارئین کرام! لاکھوں سال سے مندرجہ بالا جانوروں کی جو اولادیں ہیں‘ وہ آج بھی ویسی ہی ہیں۔ ثابت ہوا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ارتقائی عمل سے بندر انسان بن گیا وہ جہالت کی بات کرتے ہیں۔ غیر سائنسی اور غیر علمی بات کرتے ہیں۔ ڈارون کا نظریہ مدتوں سے پٹ چکا ہے اور آئے روز نئے سائنسی انکشافات سے پٹتا رہتا ہے۔
قارئین کرام! پروفیسر مائیکل کہتے ہیں:
In fact the cyclical Nature of green arabia means that some time in the future this area will once again be lush and full of vegetation, though reserchers are not sure exactly when that might happen, and whether climate change in general will put a damper on the grenning.
اس تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ عرب سرزمین مستقبل میں مکمل سبزے کے ساتھ ایک بار پھر لہلہائے گی، ماضی کی طرح یہ مستقبل میں بھی ہو کر رہے گا، پوری طرح کب ہو گا‘ ریسرچرز کو یہ بات معلوم نہیں اور یہ بھی علم نہیں موسمیاتی تبدیلیاں اس ضمن میں کیا اثرت رونما کرتی ہیں۔ عرب خطہ دوبارہ سرسبز ہو گا، جی ہاں! لوگو یہ بات بتائی ہے تو آخری رسول سیدنا محمد کریمؐ نے ہے۔ ارشاد فرمایا ’’لا تقوم الساعۃ حتی تعود ارض العرب مروجاً والنھارا‘‘ (صحیح مسلم)
ترجمہ: قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ عرب کی سرزمین دوبارہ سرسبز (چراگاہوں) اور نہروں والی نہ ہو جائے۔
لاکھوں سال پہلے جزیرۃ العرب سرسبز تھا‘ چراگاہوں اور دریائوں سے مالا مال تھا۔ مگر یہ حقیقت تو ایسے دب گئی تھی کہ تاریخ بھی اپنا وجود کھو بیٹھی تھی۔ پھر ساڑھے چودہ سو سال قبل سیدنا محمد کریمؐ کو کیسے علم ہوا کہ عرب سرزمین پہلے بھی سرسبز اور نہروں والی تھی اور ایک بار پھر ہو جائے گی۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے بتایا۔ ثابت ہواکہ حدیث شریف بھی الہامی علم ہے۔ نبی کریمؐ آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ آپؐ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ آج عرب کی سرزمین لہلہانے لگی ہے، بارشوں سے روئیدگی لوٹ آئی ہے۔ کالے پتھروں میں ہزاروں‘ لاکھوں سال پرانے پڑے بیج اپنے پھولوں کے ساتھ بہاروں کے نظارے پیش کرنے لگ گئے ہیں۔ بے شمار درود و سلام ختم المرسلینؐ پر۔ (بشکریہ: روز نامہ دنیا)