چھچھوندر کے سر میں چنبیلی کا تیل

862

وہ اپنے عہد کا نامی گرامی سوداگر تھا، دنیا کے ہر ملک میں اس کے تجارتی مراکز تھے، کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کسی ملک کو اس کے تجارتی قافلے نہ جاتے ہوں، ہر عزت دار گھرانہ اسے اپنی فرزندگی میں لینا باعث افتخار سمجھتا تھا مگر اسے تجارت کے سوا کسی اور چیز کی خواہش ہی نہ تھی وہ ہر نوجوان لڑکی کے خوابوں کا شہزادہ تھا مگر اس کی آنکھوں میں کوئی سماتا ہی نہ تھا ایک دن اس کی نظر ایک نوجوان اور خوبرو بھکارن پر پڑی اور وہ سدھ بدھ کھو بیٹھا ہمہ وقت وہی اس کی آنکھوں میں سمائی رہتی۔ عزیز و اقارب نے بہت سمجھایا کہ وہ ایک عزت دار خاندار سے تعلق رکھتا ہے کسی بھکارن کے بارے میں سوچنا بھی اسے زیب نہیں دیتا مگر وہ سنی ان سنی کر کے ٹال دیتا اور جب اس نے بھکارن کو گھر والی بنانے کا ارادہ کیا تو گھر والے اتنے ناراض اور دلبرداشتہ ہوئے کہ اس سے رشتہ ہی توڑ دیا اس معاملے میں عزیز و اقارب اور دوست و احباب نے بھی ساتھ دینے سے انکار کر دیا بالآخر وہ خود بھکارن کے گھر والوں سے ملا اور شادی کا پیغام دیا، بھکارن کے باپ نے کہا اگر کچھ عرصے تک تم بھیک کے پیشے کو اپنا لو تو یہ رشتہ ہو سکتا ہے بصورت دیگر یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی بھکاری کی بیٹی کسی سوداگر کی بیوی بنے، اس نے یہ پیشکش بھی کی کہ بھکاری اپنی بیٹی کے وزن کے برابر سونا لے لے اور یہ رشتہ منظور کر لے مگر بات نہ بنی بھکاری کسی صورت اس کی بات ماننے پر آمادہ ہی نہ ہوا، ہائے رے محبت وہ سوداگری چھوڑ کر بھیک مانگنے لگے، سال ڈیڑھ سال کے بعد بھکارن سے شادی ہو گئی اور اسے سوداگری کی اجازت بھی دے دی گئی، مگر اس نے بھیک مانگنے کو فوقیت دی اس کا کہنا تھا کہ سوداگری میں خسارے کا اندیشہ دن کا چین اور رات کا سکون چھین لیتا ہے مگر بھیک میں تو فائدہ ہی فائدہ ہے خسارے کا کوئی امکان نہیں، اس سے بہتر سوداگری کیا ہو سکتی ہے۔
وطن عزیز کے حکمران طبقے کا بھی یہی حال ہے، سیاست ایک ایسی تجارت بن گئی ہے جس میں خسارے کا امکان ہی نہیں، سیاست کے میدان میں اترنے والے پر ہُن برسنے لگتا ہے، دولت گھر کی کنیز بن جاتی ہے۔ میاں نواز شریف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ شریف فیملی کا تعلق صنعت کار گھرانے سے ہے، لکشمی دیوی بھی مہربان ہے، تجارت نے معاشرے میں ایک ممتاز مقام سے بھی نوازا ہے، انہیں دولت کمانے کے لیے سیاست میں آنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی، اگر ذوالفقار علی بھٹو صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی وضع نہ کرتے تو یہ خاندان کبھی سیاست میں نہ آتا، کہا جاسکتا ہے کہ کسی حد تک بلکہ بڑی حد تک شریف فیملی کے حامیوں کی بات درست ہو سکتی ہے کیونکہ میاں نواز شریف کے والد محترم نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا تھا کہ پاکستان میں باعزت مقام حاصل کرنا ہے تو سیاست کی وادی میں اترنا ہی پڑے گا کیونکہ یہاں اختیارات کا ہر دروازہ سیاست کی دستک پر ہی کھلتا ہے، حکمران طبقہ جو چاہے کر سکتا ہے، حکمران کوئی بھی ہو اس کی خودمختاری، شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس کی خود سری کے سامنے ہر اختیار بے اختیار ہو کر سرنگوں ہو جاتا ہے، سو میاں شریف نے اپنے بیٹے میاں نواز شریف کو سیاست کی نگری میں اتار دیا، قسمت نے یاوری کی انہیں کچھ ایسی بااختیار شخصیات کا تعاون بھی مل گیا جو سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنے پر قدرت رکھتے تھے، میاں نواز شریف ان کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن ہو گئے اور پھر وزارت عظمیٰ ان کی چھولی میں آنگری۔
حالات اور واقعات سے ظاہر ہوتا تھا کہ میاں نواز شریف تاحیات وزیر اعظم کی مسند سے چمٹے رہیں گے، اس پس منظر میں عمران خان بھی کہا کرتے تھے کہ ’’میاں صاحب جان دیو، ساڈی واری آن دیو‘‘ میاں نواز شریف نے خان صاحب کی استدعا پر توجہ نہ دی مگر عالمی قوتوں نے ان کی خواہش کو اپنی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنا لیا، اور یوں عمران خان وطن عزیز کے وزیر اعظم بن گئے، خان صاحب بھی میاں نواز شریف کی طرح تاحیات وزیر اعظم رہنا چاہتے تھے، شاید کہنے والے درست ہی کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی بربادی کا آغاز اسی دن ہو گیا تھا جس دن انہوں نے امیر المومنین بننے کا خواب دیکھا تھا نتیجتاً آج وہ خود ایک خواب بن کر رہ گئے ہیں، عمران خان نے بھی میاں نواز شریف کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے امیر المومنین کے خواب دیکھنا شروع کر دیے مگر وزارت عظمیٰ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے، شریف فیملی دولت کمانے نہیں آئی بلکہ اپنے خون پسینے کی کمائی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سیاست میں آئی، بات کسی حد تک تو درست ہے مگر ان کا حال مذکورہ سوداگر جیسا ہی ہے، اس نے بھکارن کو جیون ساتھی بنانے کے لیے سوداگری کو طلاق دی تھی اور شریف خاندان نے سیاست کو تجارت بنا دیا۔
حکمران طبقے کی روش دیکھ کر ہمیں چھچھوندر اور چنبیلی کا تیل یاد آجاتا ہے، چھچھوندر پرندہ ہے نہ چرندہ ہے مگر تھوڑا بہت غیرت مند ضرور ہے اس کے جسم سے ایسی بدبو آتی ہے جو ناقابل برداشت ہے اس بدبو سے نجات پانے کے لیے اس نے اپنے سر پر چنبیلی کا تیل لگایا اور جسم پر چنبیلی کے عطر کا اسپرے بھی کیا مگر بدبو سے نجات نہ ملی بالآخر اس نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی، جب چرند اور پرند نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں تو چھچھوندر اپنے آشیانے سے نکلتی ہے وطن عزیز کے حکمران طبقے سے بدنیتی اور بددیانتی کی بدبو کے بھبکے اٹھتے ہیں مگر انہیں کوئی پروا نہیں، ان کی بدبو نے وطن عزیز کو تعفن زدہ کر دیا ہے، سنا ہے اس تعفن کی وجہ سے دوستوں نے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔