انتخابی دھاندلی اور مینڈیٹ پر ڈاکا

646

بالآخر کراچی میں اللہ اللہ کر کے بلدیاتی انتخابات ہوگئے گو کہ متحدہ قومی موومنٹ نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن اس کے باوجود کراچی کے عوام اپنے گھروں سے باہر نکلے اور ووٹ حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ جماعت اسلامی نے ان انتخابات کے لیے بڑی محنت اور جدوجہد کی اور حافظ نعیم الرحمن نے ایک جن کی طرح تحریک چلائی اور کراچی کے ہر مسئلہ پر انہوں نے بھرپور اور توانا آواز اٹھائی جس کا جماعت اسلامی کو فائدہ بھی ہوا اور کراچی کے لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ دینے نکلے۔ پی ٹی آئی متحدہ ودیگر پارٹیوں کے لوگوں نے بڑ ی تعداد میں جماعت اسلامی کو ووٹ دیے۔ کراچی جو طویل عرصے سے متحدہ کے نرغے میں تھا اور 2018 کے قومی انتخابات میں پی ٹی آئی نے اس پر ضرب لگائی اور متحدہ کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر پی ٹی آئی کامیاب ہوئی اور اب جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی پر ضرب لگائی ہے اور بھاری اکثریت سے ان حلقوں میں جماعت اسلامی کے امیدوار کامیاب قرار پائے ہیں۔
پیپلز پارٹی طویل عرصے سے کراچی پر قبضے کا خواب دیکھ رہی تھی اور ان کے چیئرمین بلاول زرداری نے بھی کراچی کا اگلا میئر جیالا ہونے کا عندیہ دیا تھا اور وہ سمجھ رہے تھے کہ جس طرح سے اندرون سندھ سے ہم دھونس دھمکی دھاندلی کے ذریعے نشستیں حاصل کر لیتے ہیں اسی طرح کراچی میں بھی ریاستی اختیارات استعمال کرتے ہوئے قابض ہوسکتے ہیں اس کے لیے انتخابی عملہ اور الیکشن کمیشن کے افسران کی ملی بھگت اور ان کا تعاون انہیں حاصل تھا۔ 15جنوری کو رات گئے تک جماعت اسلامی کی 100سے لیکر 120 نشستوں پر کامیابی کی خبریں موصول ہورہی تھی جماعت اسلامی کے ذمے داران نے سابقہ تجربات کی روشنی میں اپنے پولنگ ایجنٹوں کو سختی کے ساتھ ہدایت کی تھی کہ وہ ریٹرینگ آفیسر کے دستخط، مہر اور ان کے انگوٹھے لگا کر نتیجہ لیکر آئیں پہلے پہل تو ہر جگہ جماعت اسلامی کے پولنگ ایجنٹوں کو بڑی پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا کسی پولنگ آفیسرکے پاس فارم گیارہ نہیں کوئی مہر نہیں لگا رہا اور سادھے کاغذ پر دستخط کر کے رزلٹ ہاتھ میں تھما رہے تھے اس پر پولنگ ایجنٹ ڈٹ گئے اور کہا کہ جب تک فارم گیارہ پر دستخط اور مہر لگا کر نہیں دوگے کوئی یہاں سے گھر نہیں جائے گا اور ہم صبح تک یہاں بیٹھے رہیں گے۔ جماعت اسلامی کراچی کے قائدین نے چیف الیکشن کمیشن پاکستان سے رابطہ کیا اور تمام تر صورتحال سے آگاہ کیا جس پر کچھ ہل جل ہوئی اور رات گئے تک نتائج ملنا شروع ہوگئے۔ اس تمام تر اقدامات کرنے کے باوجود پیپلز پارٹی حکومتی مشینری کا استعمال کرتے ہوئے جماعت اسلامی سے ہاتھ کرنے میں کامیاب ہوگئی اور بڑی تعداد میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے انتخابی نتائج تبدیل کردیے گئے اور پیپلز پارٹی 93نشستوں پر پہلے نمبر پر اور جماعت اسلامی کی نشستیں کم کر کے 86نشستوں تک محدود کر دیا گیا جبکہ تحریک انصاف 40نشستوں، ن لیگ 7، جے یوآئی 3، آزاد امیدوار 3، ٹی ایل پی،2، مہاجرقومی مومنٹ ایک نشست پر کامیاب ہونے کا الیکشن کمیشن نے 16جنوری کو شام 7بجے کے قریب اعلان کیا۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر اور میئر کراچی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن نے پریس کانفرنس کر کے ان نتائج پر سخت برہمی اور غصے کا اظہار کیا اور اسے جماعت اسلامی کے مینڈنٹ پر ڈاکا ڈالنے اور بدترین انتخابی دھاندلی قرار دیا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بھی اس کی سخت مذمت کی اور چیف الیکشن کمشنر سے رابطہ کر کے سخت احتجاج ریکارڈ کرایا اور 17جنوری کو ملک بھر میں پیپلز پارٹی کی سندھ اور الیکشن کمیشن کی دھاندلی کے خلاف سخت احتجاج کیے جانے کا کہا اور پھر 17جنوری کو ملک بھر میں کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف جماعت اسلامی کے کارکنان نے احتجاجی مظاہرے بھی کیے۔
پیپلز پارٹی کراچی کے صدر اور صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ جماعت اسلامی اپنی شکایات متعلقہ فورم پر درج کرائے انتخابی دھاندلیوں میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں ہے ورنہ میرا اپنا بھائی یوسی الیکشن نہیں ہارتا پیپلز پارٹی جماعت اسلامی سے میئر کے لیے بات چیت کرے گی۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ کراچی کے عوام نے ہم پر اعتماد کیا ہے اور وہ ہمیں ووٹ دینے اپنے گھروں سے نکلے ہیں ہم ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے اور ان کے ووٹ کی حفاظت کریں گے پیپلز پارٹی پہلے انتخابی نتائج درست کریں پھر ہم بات کریں گے جبکہ تحریک انصاف کے فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ ہم غیر مشروط طور پر جماعت اسلامی کی حمایت کریں گے اور کراچی میں جماعت اسلامی کا میئر لانے میں ان کی مدد کی جائے گی۔ جماعت اسلامی کے موجودہ 86اور تحریک انصاف کے 40ووٹ مل جائیں تو جماعت اسلامی کو باآسانی اکثریت حاصل ہوسکتی ہے۔ جبکہ لیبر خواتین، اقلیت ودیگر نشستیں بھی شامل ہوجائیں گی۔ جبکہ کراچی کے گیارہ سے زائد ٹائونز بھی جماعت اسلامی باآسانی جیت جائے گی۔ جس میں گلبرک ٹائون، نارتھ ناظم آباد ٹائون، نیو کراچی ٹائون، لیاقت آباد ٹائون، گلشن اقبال ٹائون، چنیسر ٹائون، جناح ٹائون، صفورا ٹائون، شاہ فیصل ٹائون، کورنگی ٹائون، لانڈھی ٹائون شامل ہیں۔ جبکہ دیگر دو تین مزید ٹائون بھی وہ تحریک انصاف ودیگر پارٹیوں کی حمایت سے حاصل کر سکتی ہے۔ جماعت اسلامی کراچی نے اس سلسلے میں مشاورت کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے پورے سندھ میں تو بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور جس طرح سے انہوں نے کراچی میں ہاتھ پیر مارے ہیں اسی طرح انہوں نے وہاں بھی یہ ہی پریکٹس کی ہوگئی وہاں انہیں حافظ نعیم جیسا منہ دینے والا نہیں ملا تو اس طرح وہ کلین سوئپ کر گئے اور حکومتی مشینری اپنا کام کر گئی ہے۔
جماعت اسلامی نے جس جرأت مندانہ طریقے سے اپنی انتخابی مہم چلائی اُسے اس کا پھل بھی ملا ہے۔ اب ان کی ذمے داری پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہیں ان شاء اللہ جماعت اسلامی کے نمائندے کراچی کے عوام کے اعتماد پر پورا اُتریں گے اور کراچی کے انتخابی نتائج کے اثرات پورے ملک میں مرتب ہوں گے۔ ترکی میں طیب اردوان استنبول شہر کے میئر بنے تھے اور انہوں نے استنبول کو جدید ترین شہر بنا دیا تھا جس کے نتیجے میں انہیں پورے ملک میں پزیرائی حاصل ہوئی اور وہ ترکی کے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ حافظ نعیم الرحمن کو بھی اللہ تعالیٰ نے بے انتہا صلاحیتوں سے نوزا ہے وہ انتہائی ذہین قابل ترین انجینئر ہیں۔ ملنسار ہنس مکھ ہونے کے ساتھ دلیر بھی ہیں اور اپنے موقوف پر ڈٹ جانے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل کراچی کی دعائوں کو سن لیا ہے اور کراچی کو ایسی قیادت عطا فرمائی ہے جو پاکستان کا طیب اردوان بننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور مسائل اور بحران سے نکلنے کا راستہ بھی جانتا ہے۔ پیپلز پارٹی کا پورے سندھ میں کلین سوئپ کیے جانے پر پیٹ نہیں بھرا اور اس نے کراچی کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالنے کی جو کوشش کی ہے ان کو اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ کراچی کے عوام پہلے ہی پیپلزپارٹی سے نفرت کرتے ہیں۔ گوٹھوں اور دیہی علاقوں کے غریب لوگوں کے ووٹ لیکر اور اپنی مرضی اور منشاء کی حلقہ بندیاں بنا کر اور ریاستی اختیارات کا استعمال اور دھاندلی کے ذریعے جعلی مینڈیٹ حاصل کرنا ان کے کسی کام نہیں آسکا ہے اور ان شاء اللہ حافظ نعیم الرحمن کراچی کا میئر منتخب ہوکر کراچی کے عوام کی عملی خدمت کرے گا اور کراچی کے حقوق کا رکھوالا اور کراچی کا چوکیدار بھی بنے گا۔