گوادر کی آواز سنو

737

گوادر پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ چین کے ساتھ گوادر کی ترقی گوادر بندرگاہ اور سی پیک کی تعمیر سے جہاں ملک دشمن قوتوں کے عزائم پر کاری ضرب لگی وہاں گوادر کی مقامی آباد بھی شدید مصائب اور پریشانی کا شکار ہوگئی ہے۔ گوادر کی مقامی آبادی کے مسائل اور مشکلات روز بروز بڑھتے جا رہے تھے۔ انہیں معاشی ترقی کے جو سبز باغ دکھائے گئے وہ خواب ہی رہے اورگوادر کے عوام بنیادی مسائل کا شکار رہے۔ گودار کے عوام نے گزشتہ سال مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت میں حق دو تحریک کے نام پر جو تحریک شروع کی تھی اس پر پورا گوادر مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی پشت پر کھڑا ہو گیا تھا اور اس تحریک کو بڑی پزیرائی حاصل ہوئی۔ طویل دھرنا دیے جانے پر وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے مولانا ہدایت الرحمن بلوچ اور ان کی ٹیم کے ساتھ خود مذاکرات کیے اور وزیراعلیٰ کی جانب سے حق دو گوادر تحریک کے تمام مطالبات تسلیم کیے جانے کی یقین دہانی پر طویل دھرنا ختم کیا گیا۔ لیکن اب مطالبات پر عمل درآمد نہ ہونے پر 27اکتوبر کو دھرنا دوبارہ شروع ہوگیا تھا۔ حق دو تحریک کے 19مطالبات ہیں جن میں خاص خاص میں بلوچستان کی سمندری حدود میں غیرقانونی ماہی گیری اور ٹرالروں کے ذریعے مچھلی کا شکار، بلوچستان کے لاپتا افراد کی بازیابی، ایران کے ساتھ مکران کے لوگوں کو سرحدی تجارت میں زیادہ سے زیادہ رعایتوں کی فراہمی، گودار اور مکران سے منشیات کا خاتمہ، اسکولوں سمیت ایسے مکانات سے چیک پوسٹوں کا خاتمہ جہاں سے گھروں میں خواتین کی بے پردگی ہوتی ہے اور خواتین نظر آتی ہیں۔ گوادر کے مقامی لوگوں کو گوادر پورٹ میں ملازمتوں کی فراہمی، گوادر میں پینے کے صاف پانی گیس کی فراہمی، صحت وصفائی اور نکاسی آب کی بہتری ودیگر اہم نکات شامل ہیں۔
گوادر کی مقامی آبادی مطالبات تسلیم کیے جانے کے باوجود ان پر عمل درآمد نہ کیے جانے پر حکومت اور سیاسی لوگوں سے سخت ناراض ہے۔ 26 دسمبر کو رات گئے دوماہ سے جاری پرامن حق دو تحریک کے پرامن دھرنے کو ختم کرانے کے لیے پولیس نے دھاوا بول دیا اور سخت ترین سردی میں دھرنے کے شرکاء کے لیے لگایا گیا ٹینٹ پولیس نے اکھاڑ پھینکا اور احتجاجی لوگوں پر شدید شیلنگ کی اور ہوئی فائرنگ بھی کی گئی جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوگیا۔ پولیس نے حق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمن بلوچ، حسین واڈیلا، شریف میاں داد، یعقوب جوسکی، زاہد بلوچ سمیت ایک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا۔ حق دو گوادر تحریک کے رہنمائوں کی گرفتاریوں پر گوادر کے باسیوں کا احتجاج مزید شدت اختیار کر گیا گوادر، پسنی کے علاوہ دیگر علاقوں میں کاروباری مراکز احتجاجاً بند رہے اور خواتین کی بہت بڑی تعداد اپنے گھروں سے نکل کر احتجاج پر نکل آئی، کراچی اور گوادر کے درمیان کوسٹل ہائی وے کو بھی مختلف مقامات پر بند کردیا گیا اور اہم مقامات پر معمول زندگی متاثر ہوئے۔ گوادر شہر میں پورٹ اور ائرپورٹ کے سامنے دھرنا دینے کے علاوہ احتجاجی ریلیاں بھی نکالی گئیں جن میں ایک بہت بڑی ریلی خواتین کی بھی تھی۔
گودار بلاشبہ پاکستان کا حساس ترین علاقہ ہے اور جب سے چین کے تعاون سے سی پیک منصوبہ شروع ہوا ہے اس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور جب سے یہ دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ بلوچستان جو پہلے ہی انارکی سے دوچار ہے اور ایک معمولی چنگاری سب کچھ بھسم کر سکتی ہے۔ گودار کا اولڈ ایریا مسائل کا جنگل بنا ہوا ہے اور یہ علاقہ بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ حکومت وعدے تو خوب کرتی ہے لیکن وہ ’وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے‘۔ والی کیفیت ہے، نواز شریف سے لیکر پیپلز پارٹی، عمران خان اور شہباز شریف سب نے ہی گودار کے لوگوں کو خوشنما خواب تو دکھائے لیکن ان خوابوں کو عملی تعبیر نہیں دی۔ اب جب کہ گوادر کے عوام خود اٹھے اور مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت میں عظیم الشان پرامن ’’حق دوتحریک‘‘ چلا کر بلوچستان کے تمام خانوں، سرداروں اور نوابوں کی سیاست کو ملیا میٹ کر دیا۔
وزیراعلیٰ نے جب خود حق دو تحریک کے قائدین کے ساتھ معاہدہ کیا تھا اور ان کے تمام مطالبات تسلیم بھی کر لیے تھے تو اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا۔ حق دو گوادر تحریک کے پرامن احتجاجی دھرنے پر طاقت کا استعمال اور دھرنے کے شرکاء پر تشدد، لاٹھی گولی کا استعمال، بدترین شیلنگ اور مولانا ہدایت الرحمن بلوچ سمیت حق دو تحریک کے دیگر قائدین اور کارکنان کی گرفتاریاں بلوچستان کو تباہ کرنے اور سی پیک منصوبے کو رول بیک کرنے کی سازش ہے۔ حکمران ہوش کے ناخن لیں اور تمام گرفتار قائدین اور کارکنان کو باعزت بری کیا جائے اور ان پر قائم تمام جھوٹے مقدمات ختم کیے جائیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی پاسداری کی جائے اور اس پر فوری عمل کیا جائے۔ گوادر کے مقامی باشندوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں اور وہاں پینے کا صاف پانی، اسپتال، اسکول، سڑکیں، نکاسی آب کا نظام قائم کیا جائے۔ گوادر پورٹ پر گودار کے مقامی باشندوں کو روزگار فراہم کیا جائے۔ گوادر کو منشیات سے پاک کیا جائے اور بلوچستان کی سمندری حدود میں ہیوی ٹرالروں کا داخلہ بند کیا جائے اور مقامی ماہی گیروں کا روزگار نہ چھینا جائے۔ غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ کیا جائے اور گوادر کے لوگوں کے ساتھ سیکورٹی فورسزکا ہتک آمیز رویہ ختم کیا جائے۔ لاپتا افراد کو فوری طور پر بازیاب کیا جائے اور گوادر کے غریب اور مظلوم لوگ جو اپنے حق کے لیے پرامن جدوجہد اور اپنا جمہوری حق استعمال کر رہے ہیں ان کے ساتھ طاقت کا استعمال کرنے کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے اور مشرقی پاکستان سے سبق حاصل کیا جائے۔ گودار میں طاقت کا استعمال کرنے والے آگ سے کھیل رہے ہیں اور اس سے ملک کوتباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔