سہولیات اور دوستانہ پالیسی پر مبنی ٹیکس نظام بنانا وقت کی ضرورت ہے، صدر مملکت

442
timely diagnosis

کراچی:صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک دوستانہ، خدمت پر مبنی اور معروضی ٹیکس نظام بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے نتیجے میں ہر ٹیکس دہندہ بخوشی قانون کی پاسداری اور استحصال، ہراساں کیے جانے یا ڈرائے دھمکائے بغیر ٹیکس کی ذمے داریاں ادا کرے گا۔

گورنر ہاؤس کراچی میں وفاقی ٹیکس محتسب کے کردار، افعال اور کارکردگی کے عنوان سے منعقدہ آگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تمام سرکاری افسران ٹیکس قوانین کو ان کی حقیقی روح اور صارف دوست انداز میں لاگو کریں تاکہ ٹیکس دہندگان کو ٹیکس کی ادائیگی میں سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں درپیش مسائل کو فعال بنیادوں پر حل کرنے کے بنیادی مقاصد کو برقرار رکھا جائے۔

اس موقع پر وفاقی ٹیکس محتسب (ایف ٹی او) کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2021 کا اجرا بھی کیا گیا۔ صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ یہ ٹیکس محتسب کے بنیادی فرائض میں شامل ہے کہ وہ متاثرہ شہریوں کو صارف دوست ماحول میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے اور شکایت کنندہ کے وقار کو یقینی بنائے اور اسے درپیش مسائل کو حل کرے۔

صدر مملکت نے کہا کہ محتسب سیکرٹریٹ ریاست کے اہم اداروں میں شامل ہے اور وہ متعلقہ قوانین کی صحیح تشریح اور شہریوں کے مسائل کے حل میں موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محتسب خواہ وہ وفاقی، ٹیکس یا انشورنس محتسب ہوں، سرکاری محکموں اور اداروں کے حریف نہیں ہیں بلکہ وہ عوام کو سہولت کی فراہمی اور ان کی شکایات کے حل کے لیے متعلقہ فورمز تک ان کی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے ہیں۔

انہوں نے محتسب کی خدمات کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بڑے پیمانے پر آگاہی سے عوام کا اعتماد بڑھتا ہے اور ان کی شکایات کے ازالے کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس سے رجوع کرنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔

قانون کے لکھے ہوئے الفاظ بعض اوقات تمام حالات کو پورا نہیں کرسکتے، ٹیکس سے متعلق کوئی بھی قانون سازی ایک متحرک عمل ہے جو بعض اوقات عوام کو خدمات کی فراہمی کو سست کردیتا ہے، لہذا مستقل طور پر ترامیم اور درست تشریح کی ضرورت ہے جو قانون کی اصل روح اور ارادے کی عکاسی کرتی ہے تاکہ عوام کو فوری اور بغیر کسی پریشانی کے خدمات کو یقینی بنایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ کرپشن اور ٹیکس چوری پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے جبکہ قانون اور قواعد میں کچھ خامیاں اور بے ضابطگیاں ہیں جس سے عوام یا اتھارٹی ان کا غلط استعمال کرتی ہے۔ بدعنوانی ایک ایسی لعنت ہے جسے معاشرے سے مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکا نہیں جاسکتا لیکن یہ بات افسوسناک ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس کا تناسب دیگر اقوام سے زیادہ ہے۔