کراچی ڈاکوں کے نرغے میں

699

کراچی کے مظلوم شہری آئے روز کسی نئی پریشانی اور مصائب کا شکار رہتے ہیں اور ان کی پریشانیوں اور مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اہل کراچی آج کل جن مصائب کا شکار ہیں ان میں سب سے بڑا مسئلہ اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا ہے شہر میں روزانہ لوٹ مار کی درجنوں وارداتیں ہورہی ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر کے سامنے کراچی پولیس بے بس اور لاچار بنی ہوئی ہے اور وہ شریف اور غریب لوگوں کو بے جا پریشان کرنے کے سوا کوئی اور کام نہیں کر رہی۔ ماہ دسمبر کے وسط تک شہر میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اب تک رہزنی کی 82ہزار 713 وارداتیں ہوچکی ہیں۔ دوران ڈکیتی ڈاکوئوں کی فائرنگ سے 100 افراد جاںبحق اور 419 زخمی ہوئے۔ سال 2022 میں اب تک ڈاکوئوں نے شہریوں سے 27ہزار 249 موبائل فون، 2131 گاڑیاں اور 52ہزار 383 موٹر سائیکلیں چھینی اور چوری کی ہیں۔ اسی طرح گھروں میں ڈکیتیوں کی 432 وارداتیں ہوئیں۔ 2021 میں دوران ڈکیتی مزاحمت پر ڈاکوئوں کی فائرنگ سے 69شہری اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 418 شہری زخمی ہوئے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کراچی کے موجودہ پولیس چیف نے جاوید عالم اوڈھو نے پریس کانفرنس کے دوران کراچی کے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ڈاکوئوں سے مزاحمت نہ کریں اور چپ چاپ اپنا مال ڈاکوئوں کے حوالے کردیں۔
اے ڈی آئی جی کراچی کا یہ بیان اور نسخہ کراچی پولیس کی نااہلی کی علامت ہے۔ کراچی پولیس کا اصل کام شہریوں کی جان ومال کی حفاظت ہے لیکن وہ اپنی یہ ذمے داری ادا کرنے کے بجائے وزیروں، مشیروں، جاگیر داروں، وڈیروں اور ان کے اہل خانہ کی حفاظت اور ان کے پروٹوکول پر لگی ہوئی ہے اور اسے غریب عوام کی جان ومال کی کوئی پروا نہیں۔ کراچی کے تین کروڑ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے حکمران اور قانون نافذکرنے والے ادارے بے حسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کراچی جیسے شہر میں جرائم پیشہ آزاد ہیں اور کوئی انہیں لگام دینے والا نہیں ہے۔ سفاک ڈاکو درندے اور حیوان بنے ہوئے ہیں اور اپنی درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم لوگوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں این ای ڈی یونیورسٹی کے تھرڈ ایئر کے طالب علم بلال ناصر کے دوران ڈکیتی مزاحمت پر سفاکانہ اور بے رحم قتل نے ہر شخص کی آنکھوں کو نم کر دیا۔ بلال ناصر نے کس طرح اپنی محنت سے این ای ڈی میں داخلہ لیا ہوگا اور کس طرح اس نے اپنی تعلیم کے مراحل طے کیے اور اب جب کہ فصل بالکل تیار اور پک چکی تھی ایک معمولی موبائل کی خاطر سفاک درندوں نے مادر علمی کی گود میں دن دہاڑے پاکستان کے مستقبل کے روشن ستارے کو لاقانونیت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ڈاکوئوں کے ہاتھوں مظلومانہ قتل عام پر پورا شہر سراپا احتجاج بنا ہوا ہے، شہر میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت کے خلاف بھرپور طریقے سے احتجاج بھی کیا جارہا ہے۔ این ای ڈی کے طلبہ نے بھی میں یونیورسٹی پر احتجاجی مظاہرہ کیا اور ہفتہ کے دن جماعت اسلامی کے تحت پورے شہر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینر اٹھائے ہوئے تھے اور وہ ڈاکووں کے ہاتھوں معصوم شہریوں کے قتل عام کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے۔
بلاشبہ معصوم طالب علم بلال ناصر کے بہیمانہ قتل سے ثابت ہوگیا ہے کہ کراچی شہر میں قانون نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ چور ڈاکو آزاد ہیں اور وہ جب چاہیں بینک لوٹیں یا بینک سے رقم لیکر نکلنے والے شہری کو انہیں کو ئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ کراچی کے شہری اور تاجر اس وقت انتہائی کرب اور مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور اس شہر میں کسی کی جان ومال محفوظ نہیں ہے۔ کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور پاکستان کا معاشی حب ہے پورے ملک سے لاکھوں افراد یہاں اپنے روزگار کے حصول کے لیے آئے ہوئے ہیں اور شہر کراچی سب کو اپنی گود میں سموئے ہوئے ہے لیکن حکمرانوں کو یہاں کے باسیوں کی کوئی فکر نہیں، لوگوں کا روپیہ پیسہ کیا اب تو جان بھی جا رہی ہے۔ ایسے میں محکمہ پولیس کو اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا ہوگا۔ کراچی میں محکمہ پولیس میں مستقل بھرتیاں کی جارہی ہیں لیکن یہ بھرتیاں شفاف طریقے سے نہیں کی جاتیں اور سیاسی اثر رسوخ اور پیسہ استعمال ہوتا ہے۔ کراچی میں اگر مقامی افراد کو محکمہ پولیس میں بھرتی کیا جائے تو اس کے مثبت نتائج مرتب ہوںگے۔ محکمہ پولیس میں موجود اکثریت ان کالی بھیڑوں کی ہے جو پورے محکمے کے لیے کلنک کا ٹیکہ ہیں، شہر میں تمام جرائم کے اڈے ان ہی افسران کی سرپرستی میں چلائے جاتے ہیں، پولیس کے تھانے جرائم کے کارخانے بن چکے ہیں جس کی وجہ سے آج شہر میں جرائم پیشہ عناصر بے لگام ہوچکے ہیں۔ عوام کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے شہر میں امن وامان کی روز بروز بگڑتی ہوئی صورتحال کی اصل ذمے دار بھی حکومت سندھ اور اس کا محکمہ پولیس ہے۔ شہر میں ہزاروں کی تعداد میں رینجرز، پولیس ودیگر قانون نافذکرنے والے اداروں کے اہلکار موجود ہیں۔ ان کے لیے قومی خزانے سے تنخواہوں ودیگر مراعات کے علاوہ جدید ترین اسلحہ، موبائل گاڑیاں، بکتر بند ودیگر سازسامان مہیا کیا جاتا ہے لیکن ان سب کی فراہمی کے باوجود ہاتھ کھڑے کر لیے جائیں اور یہ کہا جائے کہ شہری ڈاکوئوں سے مذاحمت نہ کریں اور چپ چاپ اپنا مال ومتاع ڈاکوئوں کے حوالے کردیا جائے ایک المیہ سے کم نہیں ہے۔
80کی دہائی میں کراچی کے علاقے ناظم آباد میں بس سے کچل کر سرسید کالج کی ایک طالبہ بشریٰ زیدی ہلاک ہوگئی تھی۔ بشریٰ زیدی کی ہلاکت نے کراچی شہر میں وہ کہرام اور ہنگامہ آرائی برپاکی الامان الحفیظ، کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی وارداتیں اور بے لگام مسلح ڈاکوئوں کے ہاتھوں شریف شہریوں کا قتل عام کسی بڑے طوفان کی آمد کا پتا دے رہی ہیں۔ حکومت سندھ اور محکمہ پولیس کو اب سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اگر کراچی کے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو پھر بدامنی کی لہر کو کوئی نہیں روک پائے گا۔ کراچی میں جرائم کے انتہائی منظم گروہ پروان چڑھ رہے ہیں اور انہیں اندرون ملک اور بیرون ملک سے بھی کنٹرول کیا جاتا ہے۔ فرسودہ عدالتی نظام کی وجہ سے یہ جرائم پیشہ عناصر اپنی گرفتاری کے چند ماہ میں ہی جیل سے رہا ہوجاتے ہیں اور پھر اپنی وارداتوں اور سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ پولیس میں بھرتی ہونے والے اہلکاروں اور افسران کا تعلق بھی اکثر ان جرائم پیشہ عناصر ہی سے نکلتا ہے جس کی جہ سے محکمہ پولیس کوناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شہر میں آج بھی کھلے عام جوئے، چرس، ہیروئن کے اڈے چل رہے ہیں پولیس کی موبائل روزانہ کی بنیاد پر یہاں آتی ہیں اور خرچہ پانی وصول کرتی ہے۔ حکومت تمام وسائل سازو سامان فراہم کرتی ہے لیکن وہ سب کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے اور ڈیزل وپٹرول کے نام پر عوام سے لوٹ مار کی جاتی ہے جس سے پورے محکمہ کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ محکمہ پولیس کو عوامی بنانے کے لیے بڑے نعرے لگائے جاتے ہیں لیکن جب تک محکمہ پولیس کو کرپشن سے پاک نہیں کیا جائے گا۔ پولیس کی جانب سے اکثر ایسے جرائم پیشہ اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے اور انہیں نوکریوں سے بے دخل بھی کیا جاتا ہے لیکن محکمہ میں جرائم پیشہ عناصر کے سرپرستوں کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے کہ کوششوں کے باوجود نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں۔ پولیس کے اعلیٰ حکام کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جب تک ان کالی بھیڑوں کو محکمہ پولیس سے پاک نہیں کیا جائے گا اس وقت تک بہتر نتائج برآمد نہیں ہوسکیں گے۔