معاشرے میں کرداری نمونوں کا بحران

889

اسلامی تاریخ اور اسلامی معاشرے کے طویل سفر میں کرداری نمونوں یا رول ماڈلز نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ان کرداری نمونوں میں علما، اساتذہ اور صحافیوں کا کردار بنیادی ہے۔ انسانی معاشروں میں کرداری نمونوں کی اہمیت یہ ہے کہ کرداری نمونے کردار سازی کے عمل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ بلاشبہ انسان فکر سے بھی متاثر ہوتا ہے لیکن اگر فکر مجسم عمل بن کر سامنے آجائے تو اس کا اثر ہزار گنا بڑھ جاتا ہے۔ رسول اکرمؐ اور صحابہ کرام کی سیرتوں کا سب سے بڑا اثر اس لیے مرتب ہوا کہ ان پاک سیرتوں میں حق صرف ’’قال‘‘ نہیں تھا بلکہ وہ ’’حال‘‘ بن گیا تھا۔ ہماری تہذیب میں ولیوں کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ انہیں دیکھ کر خدا یاد آجاتا ہے۔
ہماری تہذیب میں رسول اکرمؐ اور صحاب کے بعد علما کا مرتبہ اس لیے سب سے بلند ہے کہ انہوں نے حق کو صرف بیان نہیں کیا بلکہ اس کو بسر کرکے بھی دکھایا۔ حق کو بسر کرنے کی وجہ سے علما نے ہر دور میں تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے۔ امام غزالیؒ مسلم تاریخ کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ امام غزالی کی تصنیف احیا العلوم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی وجہ سے سارا اسلامی لٹریچر ضائع ہوجائے اور صرف احیا العلوم باقی رہ جائے تو اس کی مدد سے اسلامی لٹریچر کی عظیم الشان عمارت کو دوبارہ تعمیر کیا جاسکتا ہے۔ لیکن غزالی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوںنے اپنے دور میں تن تنہا یونانی فلسفے کا ایسا رد لکھا کہ اسلامی دنیا میں فلسفے کا بیج ہی مار کر رکھ دیا۔ یونانی فلسفے کا رد معمولی بات نہیں تھی۔ اس فلسفے نے مسلم فلسفیوں کے اسلامی عقاید کو متزلزل کردیا تھا۔ ابن سینا اور ان کے پائے کے درجنوں مسلم فلسفی یونانی فکر کے زیر اثر اس بات پر ایمان لے آئے تھے کہ خدا کا علم ناقص ہے۔ خدا کلیّات کا علم تو رکھتا ہے مگر جزیات کا علم نہیں رکھتا۔ یہ فلسفی عقل پر وحی کی فوقیت کے بھی قائل نہیں رہ گئے تھے۔ اسی طرح یہ فلسفی خدا کی طرح کائنات کو بھی ازلی و ابدی سمجھنے لگے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کائنات خدا کی پیدا کی ہوئی مخلوق نہیں بلکہ یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ موجود رہے گی۔ اس طرح انہوں نے کائنات سے خدائی صفت وابستہ کردی تھی۔ غزالی فلسفے کے طالب علم نہیں تھے مگر جب فلسفے کا چیلنج سامنے آیا تو غزالی یونانی فلسفے کو گھول کر پی گئے اور ابن رشد جیسے غزالی کے حریف کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ غزالی فلسفہ ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ امام غزالی نے اپنی معرکہ آرا اور تاریخ ساز تصنیف تہافت الفلاسفہ میں یونانی فکر سے پیدا ہونے والی 21 بڑی گمراہیوں کا ذکر کیا ہے اور انہیں رد کرکے دکھایا ہے۔ امام غزالی کے اس کام کی اہمیت یہ ہے کہ اگر غزالی یونانی فلسفے کا رد نہ لکھتے تو اسلام کا بھی وہی حشر ہوتا جو مغرب میں جدیدیت نے عیسائیت کا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ 800 سال گزرنے کے باوجود غزالی آج تک زندہ ہیں۔ مجدد الف ثانیؒ عالم بھی تھے اور صوفی بھی۔ مجدد الف ثانی کا عہد جہانگیر کا دور تھا۔ اس عہد میں اکبر کے پیدا کردہ دین الٰہی کے زیر اثر ہر طرف بے عقیدگی پھیل رہی تھی۔ شاہی دربار میں اسلام کا مذاق اڑایا جارہا تھا۔ نمازوں اور روزوں کو ترک کیا جارہا تھا۔ بادشاہ کے روبرو سجدہ تعظیمی بجالانا لازمی قرار پا چکا تھا۔ ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے گائے کے ذبیحے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ ہندوازم اسلام کو جذب کررہا تھا اور اسلام اور مسلمانوں کی بقا و سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے تھے۔ مجدد الف ثانیؒ بادشاہ نہیں تھے۔ ان کے پاس کوئی ریاست اور کوئی فوج نہیں تھی۔ مگر انہوں نے تن تنہا جہانگیر کو چیلنج کیا۔ جہانگیر نے مجدد الف ثانیؒ کو جیل میں ڈال دیا مگر مجدد الف ثانیؒ اپنے موقف سے ایک سینٹی میٹر بھی نہ ہٹے۔ مجدد الف ثانیؒ کے پاس سیاسی طاقت تو نہیں تھی مگر مسلم عوام پران کا گہرا اثر تھا چناں چہ جہانگیر کو اندیشہ لاحق ہوا کہ اگر اس نے مجدد الف ثانی کو قید رکھا تو اس کے خلاف عوامی بغاوت نہ ہوجائے چناں چہ اس نے مجدد الف ثانی کے آگے ہتھیار ڈال دیتے۔ اس طرح ایک مجدد وقت نے تن تنہا اسلام کی بقا و سلامتی کو یقینی بنالیا۔
شاہ ولی اللہ کا زمانہ بھی پرآشوب تھا۔ برصغیر میں مسلم سلطنت موجود تھی مگر اسلام کا حال ابتر تھا۔ ایسا لگتا تھا برصغیر سے قرآن اور حدیث کا علم اُٹھ چکا ہے اور اس کے احیا کا کوئی امکان نہیں۔ ان حالات میں شاہ ولی اللہ نے خواص اور عوام کو قرآن سے جوڑنے کے لیے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ ان کے فرزند نے بعدازاں قرآن کا پہلا اردو ترجمہ کیا۔ صرف یہی نہیں شاہ ولی اللہ نے معاشرے میں قرآن کے درس کو دوبارہ زندہ کیا۔ انہوں نے حدیث کے علم کے درس کا سلسلہ بھی شروع
کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورے برصغیر کی فضا ایک بار پھر قرآن اور حدیث کے علم سے معطر ہوگئی۔ آج برصغیر میں قرآن و حدیث کا جتنا علم ہے وہ شاہ ولی کی مساعی کا نتیجہ ہے۔ شاہ ولی اللہ کے دور میں مرہٹوں کی طاقت اتنی بڑھ گئی تھی کہ انہوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کردیا تھا۔ چناں چہ شاہ ولی اللہ نے خط لکھ کر احمد شاہ ابدالی کو مدد کے لیے پکارا۔ احمد شاہ ابدالی نے شاہ ولی اللہ کے خط پر لبیک کہا اور ہندوستان آکر مرہٹوں کی کمر توڑ دی۔ برصغیر میں علما کو عظمت اور اہمیت یہ ہے کہ ساری دیوبندیت مولانا اشرف علی تھانویؒ پر کھڑی ہوتی ہے ساری بریلویت اعلیٰ حضرت امام رضا خان بریلویؒ کی رہن منت ہے۔ لیکن 20 ویں صدی میں پوری امت کی امامت کا فرض سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے حصے میں آیا۔ مولانا کے زمانے تک آتے آتے پوری امت یہ بات بھول چکی تھی کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔ مولانا نے اپنی بے مثال فکر اور لاجواب نثر کے ذریعے پوری امت کو یہ بھولا ہوا سبق پھر سے یاد کرایا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔ مولانا کے زمانے تک آتے آتے امت کو یاد نہیں رہا تھا کہ قرآن ایک کتاب انقلاب ہے۔ مولانا نے قرآن اور اسلام سے ایک بار پھر انفرادی، قومی اور عالمی انقلاب کے تصور کو وابستہ کیا۔ غزالی کی طرح مولانا نے بھی مغرب کا فلسفہ کسی مدرسے اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں نہیں پڑھا تھا مگر مغرب کے چیلنج کو سمجھنے اور اس کا رد لکھنے کے لیے مولانا مغرب کی فکر کو گھول کر پی گئے۔ اور انہوں نے پوری امت اور پوری انسانیت کو بتایا کہ مغرب باطل ہے۔ جاہلیت خالصہ ہے تخم خبیث ہے، شجر خبیث ہے، مجدد الف ثانیؒ کی طرح مولانا نے اسلام کے غلبے کی جدوجہد میں کبھی جان کی پروا نہیں کی۔ مولانا کو سزائے موت ہوئی اور ان سے کہا گیا کہ اگر آپ معذرت کرلیں تو آپ کی سزا معاف کی جاسکتی ہے مگر مولانا نے کہا جب میں نے کوئی غلطی کی ہی نہیں تو معافی کا
کیا سوال۔ مولانا کی فکر کا اعجاز یہ ہے کہ مولانا کی کتب دنیا کی 70 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو کر پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں۔ یہ ہمارے علما اور صوفیا کی تاریخ کے چند نمونے ہیں۔ مگر آج صورت حال یہ ہے کہ علما، مدرسوں اور خانقاہوں کو دیکھ کر اقبال کا یہ شعر یاد آجاتا ہے۔
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
ہمارے زمانے تک آتے آتے یہ صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ ہماری سیاست اور معیشت ہی نہیں ہماری خواہشیں، آرزوئوں، ہماری تمنائیں اور ہمارے خواب بھی مغرب سے آرہے ہیں مگر ہمارے علما اور صوفیا کو نہ اس کی کوئی فکر ہے نہ غم ہے اور نہ ہی وہ مغرب کے چیلنج کا جواب دینے کے لیے کچھ کررہے ہیں۔ معاشرے میں منکرات کا سیلاب آیا ہوا ہے اور علما نے نہی عن المنکر کے کام سے توبہ کرلی ہے۔ جس طرح ہماری جامعات تخلیقی ذہن پیدا نہیں کررہیں اسی طرح ہمارے مدرسے بھی تخلیقی ذہن پیدا کرنے سے قاصر ہیں مولانا کی برپا کی ہوئی جماعت اسلامی تک نے مغرب کی فکری اور عملی چیلنجوں کی طرف سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ آج امت کے پاس غزالی، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ اور مولانا مودودی کیا ان کا سایہ بھی نہیں ہے۔
ہماری تہذیب اور ہماری معاشرتی روایت میں اساتذہ کا کردار بنیادی رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ بچے یا تو اپنے والدین کی طرح بننا چاہتے تھے یا اپنے اساتذہ کی طرح۔ استاد کی ہماری زندگی میں اہمیت یہ ہے کہ اچھا استاد اوسط درجے سے کم صلاحیت کے حامل طالب علم کو اوسط درجے کا طالب علم بنا دیتا ہے۔ اوسط درجے کے طالب علم کو وہ بہترین طالب علم بنا دیتا ہے اور بہترین طالب علم کو وہ عبقری یا جینئس میں ڈھال دیتا ہے۔ اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری جب تک زندہ رہے اپنے استاد فراق اور دیب صاحب کو یاد کرتے رہے۔ سلیم احمد عسکری کے شاگرد تھے اور انہوں نے لکھا ہے کہ مجھ پر اتنا اثر تو میرے والد کا بھی نہیں جتنا اثر عسکری کا ہے۔ سراج منیر اور احمد جاوید سلیم احمد کے شاگرد ہیں۔ سراج منیر جب تک زندہ رہے سلیم احمد سلیم احمد کرتے رہے۔ احمد جاوید کا یہ عالم ہے کہ آپ ان کے پاس دس منٹ بیٹھیں گے تو وہ دس منٹ میں ایک بار سلیم احمد کا ذکر ضرور کریں گے۔
لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے یہ صورت حال پیدا ہوئی کہ اب ہمارے پاس فراق، عسکری اور سلیم احمد کیا ان کا سایہ بھی موجود نہیں۔ ہم اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے زمانے میں استاد کو تلاش ہی کرتے رہ گئے۔ ہمیں استاد ملا بھی تو وہ جسے واوین یا انورٹڈ کوماز میں بند کرکے ’’استاد‘‘ کہنا پڑتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ ہماری صحافت ایک مشن تھی اور اس پر دیوقامت شخصیات کا غلبہ تھا۔ ایک طرف مولانا محمد علی جوہر تھے۔ دوسری طرف مولانا ابوالکلام آزاد جیسے عالم دین تھے۔ تیسری طرف مولانا حسرت موہانی تھے۔ چوتھی طرف مولانا مودودی تھے۔ پانچویں طرف مولانا ظفر علی خان تھے۔ اس زمانے میں صحافت کا معیار یہ تھا کہ پورا معاشرہ رہنمائی کے لیے صحافیوں کی طرف دیکھتا تھا۔ آج ہماری صحافت کا یہ حال ہے کہ صحافت مشن سے کاروبار بن گئی ہے۔ دوسری طرف صحافت کا یہ عالم ہے کہ اس میں نہ کہیں فلسفہ زیر بحث ہے۔ نہ کہیں ادب پر گفتگو ہورہی ہے، نہ کہیں نفسیات اور عمرانیات زیر بحث ہیں۔ ہمارے 99 فی صد لکھنے والے سیاست پر گفتگو کررہے ہیں۔ اس گفتگو پر بھی علم اور ذہانت کا سایہ نہیں ہے۔ اس میں کہیں کوئی فکری بحث ہے نہ تہذیب و اخلاق کا حوالہ ہے۔ اس دائرے میں بھی ہر طرف صرف بحران کا رقص کناں ہے۔