بنو قابل کی کہانی ابن آدم کی زبانی

661

اے ابن آدم میں جب پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے کوئی ایک سیاسی جماعت ایسی نظر نہیں آتی جس نے نوجوان کو قابل بنانے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار کی ہو۔ یہ واحد جماعت اسلامی ہے جو اسلام پرست، وطن پرست اور قوم سے مخلص سیاسی پارٹی ہے۔ ماضی میں الطاف حسین نے نوجوانوں پر کام کیا، شروع تو اچھا کیا مگر جب اُن کو اللہ نے عروج عطا کیا تو انہوں نے اسلحے کی سیاست شروع کردی، وہ نوجوان جن کے ہاتھوں میں قلم تھا وہ اسلحے کی نمائش کرتے نظر آئے، علاقوں سے بھتا لیا جاتا، پھر آپس کی ایک جنگ شروع ہوگئی جس میں نہ جانے کتنے بے قصور نوجوان شہید ہوگئے۔ کراچی والوں نے الطاف حسین کو وہ عروج دیا جس کی مثال نہیں ملتی مگر بقول شاعر ’’اپنوں نے غم دیے تو مجھے یاد آگیا‘‘ آج کراچی کی حالت دیکھ کر دل روتا ہے۔ الطاف حسین نے جن کو بنایا تھا آج وہ سب میر جعفر اور میر صادق بن گئے، جس الطاف حسین نے اُن کو شناخت دی آج وہ اُس کو گالیاں دیتے ہیں۔ یہ ایک سچ ہے کہ کل تک جن کے پاس موٹر سائیکل تک نہیں تھی آج سب کے سب کروڑ پتی اور کچھ ارب پتی بن گئے۔ فاروق ستار واحد تھے جو اس ٹولے کے ساتھ نہیں ملے، انہوں نے الگ پارٹی بنانے کی کوشش نہیں کی جب کہ ان سب میں سب سے زیادہ بااثر اور بااختیار وہی تھے۔ آج بھی اُن کا جھکائو الطاف حسین کی طرف ہے۔ خیر بات بہت طویل ہوجائے گی، مجھے تو بنوقابل کے حوالے سے گفتگو کرنی ہے۔ مگر اُس سے تھوڑا سا ذکر عمران خان کا ضروری ہے کیوں کہ نوجوانوں پر بھرپور کام تو انہوں نے بھی کیا ہے، آج کا نوجوان اُن کو اپنا قائد سمجھتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ نوجوانوں کو وہ بھی بس استعمال کررہے ہیں، اپنے اقتدار کے دور میں نوجوانوں کو صرف سنہری خواب دکھائے اگر دیکھا جائے تو میاں نواز شریف نے پہلی مرتبہ لاکھوں لیپ ٹاپ اس ملک کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو مفت دیے۔
میرا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی میں لفافہ لے کر کسی کی تعریف لکھتا ہوں جو حق اور سچ ہوتا ہے وہ قارئین کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ یہ آئی ٹی کا دور ہے اور اگر ملک کے نوجوانوں کو یہ تعلیم مل جائے تو اس سے نہ صرف طالب علم کا بلکہ ملک و قوم کا بھی فائدہ ہوگا اور اس سوچ کی تکمیل کی الخدمت نے کل میں عالمی کانفرنس کے آخری دن آرٹس کونسل جارہا تھا تو مزار قائد کے سامنے باغ جناح کے وسیع و عریض گرائونڈ میں ہزاروں طالبات کو دیکھا جو میٹرک اور انٹر پاس تھیں۔ یہ انٹری ٹیسٹ تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ طالبات کی قابلیت اور استعداد کی جانچ کے بعد کامیاب طالبات کو کمپیوٹر بڑے اور معتبر اداروں کے ذریعے فری لاسنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ایمازون، ورچیول اسسٹنٹ جیسے ہزاروں روپے مالیت کے کورسز مفت کرائے جائیں گے۔ 4 سے 6 ماہ کی مدت کے ان کورسز کے بعد ان طلبہ کے روزگار کے لیے کوشش کی جائیں گی۔ اتفاق سے گیٹ کے قریب میں ایک شاگرد جو مجھے روحانی باپ مانتی ہے ملی۔ زویا محمد شفیع کے والد دنیا میں نہیں ہیں یہ اپنی فیملی کے لیے عزت کے ساتھ کچھ کرنا چاہتی ہے۔ ویسے تو یہ بچی بے حد قابل و ذہین ہے اور ضرورت مند بھی ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ اس انٹری ٹیسٹ میں کامیاب ہو کر اپنے خاندان کی کفالت کرے۔
حافظ نعیم الرحمن ایک دماغ رکھتے ہیں، وہ تعمیری سوچ و فکر کے لیڈر ہیں جو ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ میری بدقسمتی ہے کہ پبلک میں تو میری حافظ نعیم الرحمن سے بہت ملاقاتیں ہیں مگر ون ٹو ون ملاقات کا انتظار ہے۔ خیر بنوقابل کا یہ ٹیسٹ نہایت کامیاب ثابت ہوا، بھرپور حاضری کے باوجود نہایت منظم انداز سے اختتام پزیر ہوا۔ بڑی تعداد میں الخدمت اور جماعت اسلامی کے رضا کار موجود تھے۔ سوال نامے کے ساتھ الخدمت کے لوگو والا فائل فولڈر بھی طالبات کو فراہم کیا گیا۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن، الخدمت کے چیف نوید علی بیگ کے علاوہ بہروز سبزواری، ایاز خان، زیبا شہناز، ڈاکٹر شائستہ لودھی سمیت دیگر مہمانوں نے خطاب کیا۔ سوشل میڈیا پر ڈاکٹر شائستہ لودھی پر اعتراض بھی میں نے دیکھا اور اعتراض کرنے والوں کو جواب بھی دیا۔ دراصل یہ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے کہ اچھے کاموں پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔ دراصل ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں کو جماعت اسلامی کی عوام دوستی ہضم نہیں ہوتی، ماضی کے حکمرانوں نے ہمیشہ قوم کو جاہل رکھا وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ قوم ان سے سوال کرے۔ آج جو کام جماعت اسلامی نے کیا وہ حکومت اور ریاست کی ذمے داری ہے مگر ہماری حکومت تو اپنی ذمے داری سے غافل ہے، خاص طور پر سندھ حکومت تو بس صرف سیاست چمکانے میں لگی ہے۔ کاش وہ وقت جلد آجائے کہ حافظ نعیم الرحمن اس شہر کراچی کے ناظم اعلیٰ بن جائیں تو اس لاوارث شہر کو ایک اعلیٰ قیادت مل جائے تو نہ صرف شہر کی تقدیر بدل جائے گی بلکہ یہ شہر علم کا گہوارہ بن جائے۔ عوام کے نام ابن آدم کا پیغام کہ الیکشن کے دن جماعت اسلامی کو ووٹ دیں اگر آپ کراچی سے محبت کرتے ہیں کیوں کہ جماعت اسلامی کراچی کی آخری اُمید ہے۔