مذہبی آزادی کیا ہے؟

502

مذہبی آزادی بین الاقوامی قانون اور معاہدوں میں تسلیم شدہ ایک اہم انسانی حق ہے۔ اس میں ہر ایک کو مکمل مذہبی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ اس حق میں اکیلے یا معاشرے میں موجود دوسرے افراد کے ساتھ برسرعام یا نجی طور پر تدریس، عبادت، عمل، یا اپنے مذہب اور عقیدے کو آشکار کرنے کی آزادی شامل ہے۔ مذہبی آزادی کو سلب کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے چند دن قبل امریکی وزیر خارجہ اپنی رپورٹ میں کچھ ممالک کی مثالیں دیتے ہیں۔ مثلاً برما کی جہاں روہنگیاں مسلمانوں کے خلاف نسل کشی اور انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیاگیا۔ برمی فوج نے مساجد تباہ کیں، قرآن پاک کی بے حرمتی کی۔ چین جہاں ایغور مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ ان ممالک کی مثالیں دیتے ہوئے وہ بھارت کا نام نہیں لیتے ہیں جہاں مذہبی آزادی کے حالات سنگین نہیں ہولناک ہیں۔ خاص طور سے گجرات کا حال تو سب سے زیادہ خراب ہے۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود مسلمانوں کو استصواب کا حق نہیں دیا جارہا اس کی الگ حیثیت کو ختم کردیا گیا ہے۔ کشمیریوں کو آزاد فضا میں سانس لینا مشکل ہوگیا ہے۔ اس پر تماشا یہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مذہبی آزادی کے حوالے سے رپورٹ شائع کرتا ہے۔ اس میں بھارت کا نام ہی شامل نہیں ہے اور دوسری طرف پاکستان سعودی عرب جہاں اقلیتوں کے حقوق کا مکمل تحفظ کیا جاتا ہے انہیں بلیک لسٹ کردیا گیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ امریکی وزیر خارجہ آنکھیں بند کرکے رپورٹ بناتے ہیں یا تعصب کی پٹی کے باعث انہیں مسلمانوں پر مظالم نظر ہی نہیں آتے۔ خاص طور سے بھارت میں جہاں ریاست خود ان مظالم پر ساتھ ہے۔ اور ببانگ دہل اس کا اعتراف کرتی ہے۔ اسی ماہ بھارت کی جنتا پارٹی کے رہنما ایک جلسے میں اپنی تقریر میں فخریہ کہتے ہیں ’’ایسا سبق سکھایا گیا کہ 2002ء کے بعد اب 2022ء آگیا سر نہیں اٹھاتا کوئی فسادی گجرات سے باہر چلے گئے‘‘۔
یہ بیان 2002ء کے مسلم کش فسادات میں بی جے پی کے براہِ راست حکومت کے ملوث ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔ گجرات کے سابق وزیراعلیٰ ان کے اس بیان پر تصدیق کی مہر لگاتے ہوئے کہتے ہیں ’’اگر گودھرا فساد نہ ہوتا تو بی جے پی اقتدار میں نہ آتی‘‘۔ انڈین میڈیا بھی یہ کہتا ہے کہ اگر گودھرا فسادات نہ ہوتے، ٹرین کا ڈبہ نہ جلایا جاتا تو بی جے پی کے اقتدار میں آنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ بھارت میں فسادات ریاست گجرات میں اسی گودھرا ریل کے حادثے کے بعد شروع ہوئے تھے، ریل کے ڈبے میں آگ کے نتیجے میں 59 ہندو یاتری ہلاک ہوئے، اس کا الزام لگا کر گجرات کے مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، اس میں ڈھائی ہزار کے قریب مسلمانوں کو قتل کیا گیا یا زندہ جلایا گیا، سیکڑوں مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ دوسری طرف حکومت نے ان فسادات کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ مظلوم مسلمانوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔ اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ مودی تھے، انہوں نے اس قتل و غارت گری کی سرپرستی کی، بعد میں ریل کے حادثے اور گجرات فسادات کا فائدہ بی جے پی نے اٹھایا اور گجرات کا قصاب وزیراعلیٰ بھارت کا وزیراعظم بن گیا۔ چند دن قبل اس کا ثبوت وزیرداخلہ امیت شاہ اپنی تقریر میں گجرات فسادات کا ذکر کرتے ہوئے خود ہی دیتے ہیں اور سابق وزیراعلیٰ شنکر سنگھ کہتے ہیں کہ گجرات میں محافظ ہی شکاری بن گئے تھے۔ بھارت میں عدالت بھی فسادیوں کی طرف دار بن کر کھڑی ہے، بھارت کی عدالت عظمیٰ نے بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی کا فیصلہ کیا، جب کہ ہزاروں مسلمانوں کو قتل، آبروریزی اور گھروں کو جلانے کے جرم میں صرف ایک یہی مقدمہ تھا جس میں کچھ مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ لیکن ثابت شدہ جرائم جن میں بلقیس بانو کی تین سالہ بیٹی کو ماں کے سامنے قتل کیا گیا وہ بھی انتہائی ظالمانہ انداز میں زمین پر پٹخ کر مارا گیا۔ بلقیس کے خاندان کے دیگر 9 افراد کو قتل کیا گیا، بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور عدالر عظمیٰ نے ثابت شدہ مجرموں کو رہائی کا پروانہ تھمادیا۔
2002ء کے گجرات فسادات میں ایک مسلمان رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کو بھی تشدد کرکے ہلاک کیا گیا تھا۔ علاقے کے بہت سے مسلمان اس اُمید پر کہ یہ سابق ایم پی اے اپنے اثر رسوخ کی بنا پر انہیں بچالیں گے ان کے گھر میں پناہ لینے کے لیے جمع تھے۔ لیکن ہندو فسادیوں نے ان مسلمانوں کے ساتھ احسان جعفری کو بھی تشدد کرکے مارا۔ احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری بچ جانے والوں میں شامل تھیں۔ انہوں نے انصاف کے لیے عدالت کا رخ کیا تھا۔ ذکیہ جعفری نے بعد میں عدالت میں بتایا کہ ان کے شوہر نے مودی کو جو اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ تھے مدد کے لیے فون کیا تھا لیکن انہیں کوئی مدد نہیں ملی۔ ذکیہ جعفری پچھلے بیس سال سے عدالتوں سے انصاف مانگ رہی تھیں لیکن انہیں انصاف نہیں ملا بلکہ جون 2022ء میں احسان جعفری کی بیوی ذکیہ جعفری کی درخواست ہی خارج کردی۔ ذکیہ جعفری نے اپنے شوہر اور دیگر ڈھائی ہزار مسلمانوں کے قتل کے معاملے میں بیوروکریسی کی بے عملی، پولیس کی لاپروائی بلکہ سازش اور تشدد کو ہوا دینے والوں کے خلاف مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا لیکن پولیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (SIT) نے مودی اور ان کی حکومت کو کلین چٹ دے دی۔ اس سب کے بعد مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کی امریکی رپورٹ میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں میں پاکستان کا نام شامل رکھا گیا۔ جہاں اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے اور بھارت کا نام بھی نہیں لیا گیا۔ یہ رویہ نہ صرف یک طرفہ ہے بلکہ مذہبی آزادی مزید سلب کرنے کے لیے مدد اور پشت پناہی فراہم کرنے کے مترادف ہے۔