اللہ چوٹ سے بچائے

743

ویسے تو اسلام آباد میں ایک بات بہت ہی معروف ہے کہ عدلیہ کی بڑی خبر جمعہ ہی کو آتی ہے، نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ بھی جمعہ کے روز جاری ہوا، اسی طرح بے شمار متعدد دیگر عدالتی فیصلے بھی جمعہ کے روز ہی جاری ہوئے، لیکن دو واقعات ایسے بھی جو جمعہ کے روز ہوئے، یہ دونوں واقعات تکلف دہ تھے،4 نومبر جمعہ کو وزیر آباد میں عمران خان کی ریلی پر فائرنگ ہوئی، جس میں عمران خان سمیت متعدد راہنماء زخمی ہوئے، 2 دسمبر جمعہ کو جسارت کے اسپورٹس رپورٹر سید وزیر علی قادری مری روڈ پر زخمی ہوئے، کہ انہیں موٹر سائیکل سوار نوجوان نے ٹکر ماری، جس سے وہ شدید زخمی ہوئے، انہیں کندھے، پسلیوں پر چوٹ آئی اور ایک ہڈی فریکچر ہوئی، تکلیف اور سکھ دونوں میں اللہ ہی کو یاد کیا جاتا ہے وہی تکلیف دینے والا ہے اور وہی سکھ بھی دیتا ہے، عمران خان کی ٹانگ پر ایک ماہ سے زائد وقت گزر جانے کے باوجود پلستر اور پٹی چڑھی ہوئی ہے، ظاہر وہ ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ کچھ نازک مزاج بھی ہوں، اللہ جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے، ایک بات سیاسی چوپالوں میں پوچھی جارہی ہے کہ عمران خان کو لگنے والی چوٹ کتنی گہری ہے کہ ابھی تک پٹی اُتری نہیں ہے، سید وزیر قادری کا بھی ڈاکٹرز نے آپریشن تجویز کیا ہوا ہے بس ذرا ان کی پسلیوں کے زخم درست ہونے کا انتظار ہے کہ اس کے بعد ہی ان کی ٹوٹی ہوئی ہڈی جوڑنے کے لیے آپریشن ہوگا۔ وزیر قادری اسپورٹس جرنلسٹ ہیں اور عمران خان اسپورٹس مین رہے ہیں ابھی بھی وہ سیاست میں کرکٹ کی اصطلات استعمال کرتے ہیں، اب دیکھتے ہیں کہ دونوں میں پہلے کون صحت یاب ہوتا ہے، وزیر قادری تو عام سے شہری ہیں، خاص نہیں ہیں، اشرافیہ میں سے بھی نہیں ہیں، اللہ والے ہیں، عمران خان ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، مقبول راہ نماء ہیں، سابق وزیر اعظم رہے ہیں، فیس بک، ٹویٹر پر ان کے لاکھوں فالورز ہیں، ایسے میں کون ہوگا جو خبر گیری نہیں کرے گا؟
طبی ماہرین ہی کی رائے ہے کہ زخموں پر بلا ضرورت پٹی نہیں کرتے، انہیں کھلا بھی چھوڑدیا جاتا ہے، لیکن جو شخص ڈاکٹر بھی ہو، سیانا بھی ہے اور اپنی ہی بات کو حتمی سمجھتا ہو، اسے کوئی دوسرے کی بات ماننے پر مجبور نہیں کرسکتا ہے، وزیر قادری نے تو صحت یابی کے بعد محنت مزدوری کرنی ہے تبھی تو گھر چلے گا، جسے کوئی فکر معاش نہ ہو اسے کیا علم کہ دال کیا بھائو ملتی ہے، ہم تو دونوں کی نہیں بلکہ کل جہاں کے بیمار انسانوں کی صحت یابی کے دعا گو ہیں۔ عمران خان ان دنوں بیمار بھی ہیں اور پارٹی اجلاس بھی کر رہے ہیں، اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے اپنے اعلان پر عمل درآمد کی حکمت عملی بنا رہے ہیں، اس کوشش میں ہیں جو اعلان کردیا ہے اس پر اب عمل بھی کرلیا جائے مگر انہیں اپنی ہی کمین گاہ میں کچھ مشکلات درپیش ہیں، ان کی پارٹی میں اور اتحادیوں میں کچھ حکمت عملی کا اختلاف ہے، اس لیے استعفوں کی بات آگے نہیں بڑھ رہی، چلیے اگر بات نہیں بڑھ رہی تو پارلیمانی مکالمہ کرلیا جائے، اتفاق سے فیصلہ کرلیا جائے، حالات سے سمجھوتا کرلیا جائے دیکھتے ہیں بالغ نظری کا مظاہرہ کرنے میں کتنا وقت درکا رہے، زخم بھی مندمل ہونے میں وقت لیتا ہے ہوسکتا ہے کہ اسمبلیوں سے استعفے نہ آئیں، مگر اللہ کے حکم سے وزیر قادری کی پٹی پہلے اُتر جائے، ہوسکتا ہے پٹی اُتارنے کا ان کا فیصلہ غیر مقبول ہو مگر سود مند ہوگا، کچھ ایسے بھی ہیں جو مقبول فیصلوں کے سراب کے پیچھے بھاگتے رہیں گے شعور یہی کہتا ہے کہ انسان کو حقیقت پسند ہونا چاہیے کہ اسی میں فلاح ہے کیونکہ وقت پر پٹی کرنے اور وقت پر پٹی اُتار دینے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔