سیاسی مکالمے کی ضرورت

510

پاکستان میں سیاسی تصادم اور معاشی بحران ایک دوسرے سے منسلک ہوگئے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے 13 جماعتی مخلوط حکومت آٹھ ماہ گزر جانے کے باوجود اس بحران کے سبب اپنے پائوں جمانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کے قائد عمران خان پارلیمان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے میں تو ناکام ہوگئے لیکن اس کے بعد وہ سڑکوں پر آگئے ہیں، انہوں نے سیاسی بحران کے حل کے لیے قبل ازوقت انتخابات کے مطالبے کے لیے سیاسی تحریک جاری کی ہے۔ ابھی تک آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت کے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے ہیں، اس کے پس منظر میں بھی سیاسی غیر یقینی کا دخل ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے دوست ممالک اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے بھی کوئی واضح اشارے نہیں دے رہے ہیں۔ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہوگیا ہے، حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان تنازع کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ وہ اپنی مدت پوری کرے گی جب کہ حزب اختلاف کا مطالبہ یہ ہے کہ فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے ورنہ وہ پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کردیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی غیر یقینی کے خاتمے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ ان حالات میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان رابطے کا سلسلہ قائم ہوگیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے تیسری ملاقات کی ہے۔ اس طرح حکومت اور حزب اختلاف میں بالواسطہ مذاکرات شروع ہوگئے ہیں۔ ان ملاقاتوں کے ذریعے ملک کو ہیجان خیز سیاسی صورت حال سے نکالنے میں مدد مل سکتی ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیرخزانہ سے ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو کی ہے اور اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ اسحاق ڈار کے ذریعے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان رابطہ کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ گفتگو سے تمام مسائل کا حل ممکن ہے، چاہتا ہوں حکومت اور اپوزیشن مل کر بیٹھیں۔ اسحاق ڈار سے بھی مذاکرات کرنے کا کہا۔ عوامی مینڈیٹ کے لیے نئے انتخابات ہی واحد راستہ ہیں۔ اس سے پہلے اسحاق ڈار اور عارف علوی ملاقات کے ذریعے بَری فوج کے سربراہ کے تقرر کا مسئلہ بغیر کسی اختلاف، انتشار، بحث مباحثے اور الزام و جوابی الزام کے بغیر خوش اسلوبی سے طے ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر علوی نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نئی فوجی قیادت سیاست سے دور رہنا چاہتی ہے۔ اس لیے بھی اگر نئے انتخابات کے نظام الاوقات اور انتخابی اصلاحات کے مسئلے پر باہمی مذاکرات کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو یہ بہت بہتر ہوگا۔ ان مکالمے اور مذاکرات کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ سیاست میں فوجی مداخلت ہمیشہ جن بہانے سے کی گئی ہے وہ باہمی سیاسی تصادم ہے۔ اس موقعے سے سیاسی قوتوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے اور حقیقی معنوں میں پارلیمان کی بالادستی قائم کی جانی چاہیے۔ ویسے بھی پارلیمان کی مدت ختم ہونے میں زیادہ وقت نہیں رہ گیا ہے۔ دونوں گروہوں کے مطالبات کے مطابق انتخابات کے نظام الاوقات میں زیادہ سے زیادہ چھے مہینے کا فرق واقع ہوسکتا ہے۔ اس لیے سیاسی مکالمے کے ذریعے انتخابات کی تاریخ پر اتفاق ہوجانا چاہیے اور حکومت اور حزب اختلاف اسحاق ڈار اور ڈاکٹر عارف علوی کے رابطے کو کامیاب بنانے میں تعاون کریں۔ معاشی اور اقتصادی صورت حال کے لحاظ سے پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ گزشتہ چھے مہینے سے ’’ڈیفالٹ‘‘ کے خطرے کی باتیں ہورہی ہیں۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے بھی قوم کو یقین دلایا ہے کہ ڈیفالٹ کا خطرہ موجود نہیں ہے۔ اس بیان اور یقین دہانیوں کے باوجود ماہرین معیشت کو یقین نہیں آرہا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے سخت شرائط منوانے کے لیے دبائو بڑھتا جارہا ہے۔ اس لیے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ضروری ہے اور سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ایک نئے مینڈیٹ سے قائم ہونے والی حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ لیکن اگر اسی طرح سیاسی محاذ آرائی جاری رہی تو سیاسی بحران بھی جاری رہے گا۔ وزیرخزانہ اور صدر مملکت کی تواتر سے ملاقاتوں نے اس تاثر کو بحال کردیا ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف میں رابطہ قائم ہوگیا ہے۔ ان رابطوں کا ایک نکاتی موضوع نتیجہ خیز ہوسکتا ہے کہ انتخابات کے نظام الاوقات اور انتخابی اصلاحات پر اتفاق کرلیا جائے۔