نئے آ رمی چیف جنرل عاصم اور مسائل کے پہاڑ

377

سب سے پہلے تو جنرل عاصم منیر کو دلی مبارک باد کہ وہ پاک فوج کے سربراہ مقرر ہو چکے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ وہ جس دور میں آرمی چیف بنے ہیں، وہ پاکستان کی تاریخ کا کٹھن ترین دور ہے۔ یوں کہیے کہ انہیں اب اپنی زندگی کے سخت ترین امتحان سے گزرنا ہوگا۔ ان کے سامنے مسائل کے پہاڑ ہیں۔ وطن عزیز پر بھی کیسا کڑا وقت آن پڑا ہے کہ ایک مصیبت ٹلتی نہیں کہ دوسری سر اٹھا لیتی ہے۔ سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے گرداب میں غوطہ زن پاکستان کو کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) نے رواں برس جون میں حکومت کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کو ختم کرتے ہوئے ملک بھر میں دہشت گردانہ حملوں کا اعلان دیا ہے۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے کہا گیا کہ ہم نے مسلسل صبر کا مظاہرہ کیا ہے تاکہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ نہ کیا جائے لیکن فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے حملے جاری ہیں اس لیے اب ہمارے جوابی حملے بھی پورے ملک میں شروع ہو جائیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ بسا اوقات ہاتھوں کی دی ہوئی گانٹھیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں اور ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان اسی کیفیت سے دوچار ہے۔ تجزیہ نگاروں کی جانب سے تحریک طالبان کی دھمکی کو نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ممکنہ پالیسیوں کی پیش بندی کے طور پر لیا جانے والا اقدام قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ جنرل عاصم منیر دہشت گردی کے خلاف ماضی میں کی گئی ساری کارروائیوں کا حصہ رہے ہیں۔
جنرل عاصم، جنہوں نے نومبر کے آخری ایام میں پاک فوج کی کمان سنبھا لی ہے، وہ اب پاک فوج کے 17 ویں سربراہ بن گئے ہیں۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ نئے آرمی چیف کے تقرر کا عمل آئین اور قانون کے مطابق انتہائی خوش اسلوبی سے سرانجام پایا، اس اہم تقرر کے بعد وہ تمام افواہیں بھی دم توڑ گئیں جو اس ضمن میں پھیلائی جارہی تھیں۔ پاکستان کے سیاسی اور معاشی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو غیریقینی اور عدم استحکام کے بادل چھائے ہوئے ہیں، موجودہ اتحادی حکومت ملک کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہے، دوسری جانب ملکی جاری سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت کی بحالی میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ سیاسی میدان میں محاذ آرائی کا سلسلہ جاری ہے، جیسا کہ تحریک انصاف کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے فواد چودھری نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت نے پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کی توثیق کردی ہے۔ سندھ اور بلوچستان سے ہمارے ارکان اپنے استعفے جمع کرائیں گے، اسپیکر قومی اسمبلی کو ارکان کے استعفے منظور کرنے کا کہا جائے گا، جب کہ مسلم لیگ ن پنجاب کی صوبائی پارلیمانی ایڈوائزری گروپ نے حمزہ شہباز کی سربراہی مشاورت کی اور عمران خان کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے منصوبے کو روکنے کے لیے پنجاب میں گورنر راج لگانے سمیت دیگر آپشنز بھی زیر غور آئے، اگر دو صوبائی اسمبلیاں ٹوٹتی ہیں، تو الیکشن کمیشن کے مطابق ایک حلقے میں پانچ تا سات کروڑ روپے کے اخراجات انتخابات منعقد کروانے پر آئیں گے۔ ایک ایسے وقت میں جب تاریخ کے بدترین سیلاب نے ملک کی معیشت کی کمر توڑ دی ہے، الیکشن میں جانا ملک معیشت کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا۔ اس طرح ملک میں تصادم بڑھے گا۔ مسلسل انتشار اور افراتفری کے ماحول میں ملکی معیشت مسلسل زوال کا شکار ہے۔ ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ اگر اس طرح کی سیاسی ہٹ دھرمی معمول بن گئی تو کیا معیشت ٹھیک ہو جائے گی؟ بدقسمتی سے، اس سوال کا کوئی حتمی جواب نہیں ہے۔
موجودہ حکومت کو قبل از وقت انتخابات کرانے پر مجبور کرنے کے لیے لوگوں کو جمع کرنے کا اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان پر بیرونی قرضے کا تناسب بڑھ گیا ہے اور تباہ کن سیلابوں کے نتیجے میں زرعی شعبہ تقریباً دائمی جمود کا شکار ہورہا ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ ٹی ٹی پی کے سیز فائر ختم کرنے کے اعلان کی ٹائمنگ بہت معنی خیز ہے، ایسا لگتا ہے کہ پاکستان دشمن طبقہ حالات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت پر اضافی بوجھ پڑ رہا ہے، اقتدار کے لیے جاری کشمکش نے غریب عوام کی زندگی اجیرن ہی نہیں کی ہے بلکہ ملک کی سلامتی کو بھی خطرہ سے دوچار کررکھا ہے، رہی سہی کسر بڑھتی ہوئی مہنگائی نے پوری کردی ہے جس کی وجہ سے عام شہری کی قوت خرید ختم ہو گئی ہے۔ کسان، روزانہ اجرت کمانے والے مزدور اور متوسط طبقہ ہوشربا مہنگائی کی وجہ سے مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔ اسی تناظر میں ماہرین اقتصادیات نے معاشی بحالی کے لیے مختلف طریقہ کار کی یکجائی کے ذریعے جامع اصلاحاتی پیکیجز اور پائیدار ترقی پر زور دیا ہے۔ جی ڈی پی کی شرح نمو کو بڑھانے پر صرف توجہ مرکوز کرنا کافی نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان کے مسائل زیادہ تر ساختی ہیں۔ پاکستان کا معاشی پروفائل ساکھ اور مالی استحکام کے بین الاقوامی پیمانے پر مستحکم سے منفی تک گر گیا ہے۔ ملک سرکاری قرضوں کے خطرے میں بھی چوتھے نمبر پر ہے۔