معاشی ایمرجنسی کی خبریں

504

وزارتِ خزانہ نے ملک میں معاشی ایمرجنسی لگانے کی خبروں کی تردید کی ہے۔ وزارتِ خارجہ کی طرف سے اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر مبینہ معاشی، ہنگامی تجاویز پر ایک غلط پیغام گردش کررہا ہے۔ محکمہ خزانہ نہ صرف مذکورہ پیغام میں کیے گئے دعوئوں کی سختی سے تردید کرتا ہے بلکہ واشگاف طور پر اعلان کرتا ہے کہ معاشی ایمرجنسی لگانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے اس پیغام کا مقصد ملک میں معاشی صورتِ حال کے بارے میں غیر یقینی کی کیفیت پیدا کرنا ہے۔ عوام ایسی افواہوں پر دھیان نہ دیں جو پاکستان کے قومی مفاد کے خلاف ہیں۔ اسے صرف وہی لوگ پھیلا سکتے ہیں جو پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوش حال دیکھنا نہیں چاہتے۔ معاشی مشکلات کے اس دور میں ایسے جھوٹے پیغامات گھڑنا اور پھیلانا قومی مفاد کے خلاف ہے۔ پیغام میں مذکورہ 9 نکات کا محض پڑھنا ہی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ تجاویز کس حد تک مفید ہیں، پاکستان کا سری لنکا سے موازنہ کرنا بھی بالکل نامناسب ہے۔ موجودہ مشکل صورت حال بنیادی طور پر اجناس کی سپر سائیکل، روس، یوکرین جنگ، عالمی کساد بازاری، پالیسی ریٹ میں اضافے اور سیلاب سے تباہی جیسے خارجی عوامل کا نتیجہ ہے، حکومت اس طرح کے بیرونی عوامل کے اثرات کو کم کرنے کے لیے بھرپور کوشش کررہی ہے۔ یہاں تک کہ جب اسے غیر معمولی سیلاب کے معاشی نتائج کا سامنا ہو اور آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنا پڑے، حکومت وقت تمام بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کو پورا کرتے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام کو مکمل کرنے کے لیے پُرعزم ہے، اور اس مشکل معاشی صورتِ حال میں حکومت نے وفاقی کابینہ کی منظوری سے کفایت شعاری کے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ ایسے اقدامات عوام کے علم میں ہیں اور ان کا مقصد غیر ضروری اخراجات کو ختم کرنا ہے، اسی طرح حکومت توانائی کی بچت پر غور کررہی ہے جس کا مقصد بنیادی طور پر درآمدی بل کو کم کرنا ہے۔ موجودہ حکومت کی کوشش سے آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ پٹری پر آگیا ہے‘‘۔ وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کا تقریباً مکمل متن ہم نے نقل کردیا ہے، جس میں معاشی ایمرجنسی کے خطرات کی تردید کی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری مذکورہ خبر اور تجاویز سے قطع نظر تمام ماہرین معیشت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ملک ’’ڈیفالٹ‘‘ کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ماہرین معیشت جو آئی ایم ایف کے پاس جانے کے حق میں نہیں تھے وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس وقت آئی ایم ایف سے قرضے کا معاہدہ کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے، اس بات کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ ملکی معیشت حقیقی معنوں میں دیوالیہ نہ ہوجائے۔ وہ معاشی ایمرجنسی کے خطرات سے بھی خوف زدہ ہیں۔ وزارتِ خزانہ کی جانب سے تفصیلی وضاحت کا بھی یہی مطلب ہے کہ حکومت پر دبائو کتنا بڑھ گیا ہے۔ حکومت کی ترجمانی کے لیے ’’غیر سیاسی‘‘ افسر شاہی کو ’’سیاسی حکومت‘‘ کا ترجمان بننے کی ذمے داری ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ پاکستان میں معاشی بحران میں اضافہ گزشتہ سات مہینوں میں ہوا ہے، جب مہنگائی کے اضافے کو بنیاد بنا کر تحریک عدم اعتماد لائی گئی اور معاشی بحران سیاسی عدم استحکام سے آمیز ہوگیا۔ حکومت میں تجربہ کار سیاسی جماعتیں شریک ہیں، دو سب سے بڑی جماعتیں جو باری باری حکومت کرتی تھیں وہ مشترکہ طور پر حکومت کررہی ہیں۔ جماعت اسلامی کے سوا تمام علاقائی اور چھوٹی سیاسی جماعتیں دونوں بڑی جماعتوں کی اتحادی ہیں، لیکن ’’تجربہ کار‘‘ حکمراں بھی معاشی عدم استحکام پر قابو نہیں پاسکے۔ یہاں تک کہ ان آٹھ ماہ میں بھی آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہوسکا ہے۔ آئی ایم ایف اپنی سخت شرائط میں مزید سختی لارہا ہے، جب کہ توانائی اور اس سے متعلقہ تمام سہولتوں کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہو گیا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے نے ہر شے کی قیمت آسمان پر پہنچادی ہے۔ اب صورت حال اتنی سنگین ہوچکی ہے کہ غذائی اجناس کی قلت کا مسئلہ بھی سامنے آسکتا ہے۔ ڈالر کی قلت کی وجہ سے نجی تجارتی بینکوں نے ایل سی کھولنے سے انکار کردیا ہے۔ نجی بینکوں نے صنعتی خام مال اور دیگر اشیا کے ساتھ غذائی اشیا کی درآمد کے لیے بھی زرمبادلہ کی فراہمی سے انکار کردیا ہے، اس وجہ سے تمام اشیا کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا ہے۔ ان حالات میں آئی ایم ایف نے اپنی شرائط مزید سخت کردی ہیں۔ عالمی سطح پر معاشی بحران، روس، یوکرین جنگ، کووڈ کی پابندی کی وجہ سے رسل و رسائل میں رکاوٹ اور عالمی کساد بازاری کے اثرات بھی مل گئے ہیں۔ ان اسباب و عوامل کے باوجود پاکستان کے موجودہ ہلاکت خیز بحران کا سبب سابق حکمرانوں کی غلط معاشی پالیسیاں ہیں۔ گزشتہ بیس برس کے سالانہ بجٹ کا جائزہ لیں تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ عوام سے وصول کیے جانے والے ٹیکسوں کو دفاع، قرض اور اس کے سود اور سرکاری ملازموں کی تنخواہ ادا کرنے پر ہی خرچ کیا جارہا ہے۔ اس کے بعد عوام کو سہولتیں دینے کے لیے پیسہ بچتا ہی نہیں۔ عوام کے حالات اس نہج پر پہنچادیے گئے ہیں کہ لوگ اپنے بچوں کو قتل کرکے خود کشی کررہے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کے اعلامیے کے باوجود معاشی ایمرجنسی اور دیوالیہ قرار دیے جانے کے خطرات موجود ہیں۔ دسمبر میں ایک ارب ڈالر کے قرض کی قسط کی ادائیگی کے باوجود ڈیفالٹ کا خطرہ موجود ہے۔ اسٹیٹ بینک میں زرمبادلہ کے ذخائر 7 بلین ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ خام مال کی درآمد میں کمی کی وجہ سے برآمدات میں بھی کمی آئی ہے، جو زرمبادلہ کے حصول کا کلیدی ذریعہ ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ترسیلات میں 7 فی صد کمی ہوسکتی ہے، یعنی گزشتہ سال کے 31 ارب ڈالر کے مقابلے میں 29 ارب ڈالر کی ترسیلات ہوں گی، جب کہ پاکستان کو تقریباً 73 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے۔ اس صورتِ حال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ تمام قرض دہندگان اداروں اور ممالک سے مہلت حاصل کی جائے، اس میں عالمی مالیاتی ادارے، دولت مند ممالک سمیت چین اور سعودی عرب سمیت دوست ممالک بھی شامل ہیں، لیکن یہ سب آئی ایم ایف کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان سات ماہ کا منظر یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے پہلے اپنے ہی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل پر الزام تراشی کی، بعد میں مفتاح اسماعیل نے موجودہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے وہی کام کیا ہے جس کا الزام تحریک انصاف کی حکومت پر عائد کیا جاتا تھا۔ اب اس بات کی خبریں ہیں کہ وفاقی وزیرخزانہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ میں شامل فیصلہ کن ممالک کے سفیروں سے تعاون حاصل کرنے کے لیے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ انہوں نے امریکی سفیر اور برطانوی سفیر سے اپنی ملاقاتوں میں اسی موضوع پر بات کی ہے، وہ چین، فرانس اور جرمنی سے بھی بات کریں گے جو آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ میں فیصلہ کن ووٹ رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کی سیاسی قیمت دینا ہوگی۔ ماضی کی تاریخ کی روشنی میں اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ قیمت کیا ہوگی۔ اس کے باوجود عام غریب، مفلس آدمی کے ساتھ متوسط طبقے کے حالات میں کسی بہتری کے کوئی آثار نہیں۔