سندھ میں منایا جانے والا ایکتا کا دن

626

دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک تہذیب باب الاسلام صوبہ سندھ کی تہذیب بھی شمار کی جاتی ہے، اس لیے اہل سندھ کو بجا طور پر اپنی تہذیب، ثقافت اور زبان سے فطری محبت اور لگائو ہے۔ مولانا غلام محمد گرامی مرحوم و مغفور نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’’سندھ‘‘ کا یہ نام دراصل چینیوں نے اسے دیا تھا، پھر اہل ایران نے اس کو تبدیل کرکے ’’سندھو‘‘ نام رکھ دیا۔ ایک ہندو محقق بھیرومل مہر چند کے مطابق یہ نام درحقیقت ’’سندھوندی‘‘ یعنی دریائے سندھ کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔ سنسکرت زبان میں سندھو کا مطلب ہے ’’بڑا دریا یا سمندر‘‘ ’’قدیم سندھ‘‘ نامی کتاب کے مصنف کے مطابق سندھ اصل میں SYAND سینڈ ہے جس کا مطلب ہے روانی یا بہائو۔ غرض یہ ہے کہ ’’جتنا منہ اتنی باتیں‘‘ تاہم مقصد کی بات یہ ہے کہ صوبہ سندھ بلاشبہ پیار، محبت، امن اور آشتی کی ایک ایسی سرزمین ہے جو اپنی مثل آپ ہے۔ یہاں کے باشندے اخلاص و محبت کا پیکر ہیں۔ مہمان نوازی، وضع داری، مشکل گھڑی میں ساتھ دینا اس خطے کے باسیوں کی عادت ثانیہ ہے۔ سندھی ثقافت اور تہذیب میں اسلامی اقدار اس قدر راسخ اور پیوست ہیں کہ ان کے بغیر اہل سندھ اپنی زندگی بسر کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ سندھ کی تہذیب اور ثقافت ہمہ جہت اور گوناگوں خصوصیات کی حامل ہے۔ خود کو تکلیف میں رکھ کر مدد کے طلب گار کی امداد کرنا بھی یہاں کے باشندوں کا خاصہ ہے اور ہاں ایک اہم ترین خوبی اور وصف جسے میں فراموش کرگیا اور وہ ہے اپنائیت۔ اہل سندھ میں اپنائیت کا ایک ایسا جذبہ ہے کہ جو فرد بھی باہر سے یہاں آتا ہے وہ اہل سندھ کی اپنائیت، اخلاق اور وسیع القلبی کا معترف اور اسیر بن کر رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کے مختلف ادوار میں باہر سے آنے والی مختلف زبان، رنگ و نسل کی حامل اقوام نے بھی جب اس سرزمین پر اپنے قدم رکھے تو پھر ان کے یہ قدم یہاں پر کچھ اس طرح سے پیوست ہو کر رہ گئے کہ انہوں نے بھی یہاں کی زبان، تہذیب اور ثقافت کو اپنالیا اور وہ اقوام پھر ہمیشہ کے لیے یہیں کی ہو کر رہ گئیں۔
بڑے بزرگ بتاتے ہیں کہ پرانے زمانے میں اگرچہ زیادہ خوش حالی تھی اور نہ ہی وسائل کی کثرت، تاہم لوگ دل کے بے حد سخی ہوا کرتے تھے اور بہ وقت شب کھانے میں روٹی سالن کے ساتھ اگر مہمان کو دودھ پیش نہیں کیا جاتا تھا تو اسے ناپسندیدہ بات میں شمار کیا جاتا تھا۔ اسی طرح سے اگر ناشتہ میں بہ وقت صبح مہمان کو لسی اور مکھن کا نہ دیا جانا بھی بُرا سمجھا جاتا تھا۔ خوش قسمتی سے اس دورِ زوال میں اہل سندھ اب بھی اپنی بیش تر مثبت روایات، تہذیب اور ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی اعلیٰ اسلامی اور انسانی اقدار کو بھی وہ ہنوز اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں جو بہرحال ایک قابل ستائش امر ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم علمی اور تعلیم کی کمی سے چند ایسی رسوم بھی درآئی ہیں جو معیوب اور بُری سمجھی جاتی ہیں۔ مثلاً کاروکاری یا سنگ چٹی وغیرہ، لیکن بحیثیت مجموعی بیش تر اہل سندھ انہیں برا گردانتے ہی نہیں بلکہ ہر سطح پر ان کی سخت مذمت بھی کی جاتی ہے۔
سکرنڈ ضلع نواب شاہ (اب ضلع شہید بے نظیر آباد) کے معروف صحافی، دانش ور، ادیب، مصنف کتب ہائے مفیدہ و کثیر، جناب عبدالتواب شیخ جن کی تجاویز میں لڑکپن تا ایں دم پڑھتا چلا آرہا ہوں اور جو سچ مچ ایک ’’چھوٹے سے شہر کے بہت بڑے آدمی‘‘ ہیں۔ اپنی علمیت اور قابلیت کی بنا پر جن کے کالم گاہے روزنامہ ’’جسارت‘‘ کے ادارتی صفحہ پر رونق افروز ہوا کرتے ہیں۔ ایک بے حد معلومات افزا کتاب بہ عنوان ’’سندھ کی ریتیں اور رسمیں‘‘ لکھ کر داد تحقیق دے چکے ہیں جو پڑھنے کے لائق ہے۔ اہل سندھ کو اس بات پر بھی ناز ہے کہ سندھی زبان کے ایک بہت بڑے اور غیر معمولی وسعت اور خیال آفرینی پر مبنی شاعری کرنے والے شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کا تعلق بھی سندھ سے ہے۔ اسی طرح سے دنیا کا سب سے بڑا قبرستان مکلی (ٹھٹھہ) اور دنیا کا سب سے بڑا قلعہ رنی کوٹ بھی سندھ ہی میں واقع ہے۔ نیز پہیہ اور بیل گاڑی بھی اسی خطے کے باشندوں کی ایجاد ہے، جب کہ دنیا میں سب سے پہلے گندم اور کپاس کی فصل بھی یہیں پر کاشت کی گئیں (واللہ اعلم)۔
گزشتہ 13 برس سے ہر سال سندھ میں ثقافت کا دن اہل سندھ بڑے جوش و جذبہ اور ذوق و شوق سے منایا کرتے ہیں، نہ صرف سندھ بھر میں سندھی زبان بولنے والے بلکہ دوسری زبانیں بولنے والے باشندے بھی ان کے ساتھ اس دن کو سندھی ٹوپی اور اجرک پہن کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی اہل سندھ رہائش پزیر ہیں اس دن کو وہ بھی روایتی جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں اور شنید ہے کہ کینیڈا کے صوبہ البرٹا میں اس ثقافتی دن کو وہاں کی حکومت سرکاری طور پر منانے کا اہتمام کرتی ہے۔ بلاشبہ سندھ کی تہذیب اور ثقافت قدیم ترین ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی بھرپور اور شاندار ہے۔ ہر سال 4 دسمبر کو یہ ثقافتی دن سندھی ٹوپی پہن کر اور اجرک اوڑھ کر منایا جاتا ہے۔ لوگ اس موقع پر پگڑیاں بھی باندھتے ہیں، سندھ میں وقتی طور پر اس ثقافتی دن کو منانے کی بنا پر اجرک اور سندھی ٹوپیاں فروخت کرنے اور بنانے والوں کا کاروبار بھی خوب چمک اُٹھتا ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔ اس ثقافتی دن کے موقع پر ادبی پروگرامات کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ رات کو ’’مچ کچہریاں‘‘ (یعنی آگ کا الائو دہکا کر اور اس چہار اطراف بیٹھ کر) ہوتی ہیں جن میں شعر و شاعری بھی ہوتی ہے اور سندھ کے روایتی کھانے اور مشروبات بھی شرکائے تقریب کو پیش کیے جاتے ہیں۔ سندھ کے سنجیدہ، فہمیدہ پڑھے لکھے لوگوں اور مذہبی حلقوں کو اس دن کے منانے پر کوئی بھی اعتراض نہیں ہے البتہ اس موقع پر روڈوں راستوں پر جو پرشور موسیقی پر مردو و خواتین بے ہنگم اور غیر ضروری رقص کرتے ہیں وہ اس پر معترض ہوتے ہیں کہ اس سے بہرحال ایک منفی تاثر اُجاگر ہوتا ہے۔ سندھی ٹوپی پر بنائی گئی محراب دنیا بھر میں اس ٹوپی کو ایک انفرادیت عطا کرتی ہے جو اہل سندھ کی دین اسلام سے قلبی لگائو کی واضح مظہر ہے۔ تیرہ سال قبل اس ثقافتی دن کو منانے کا اچانک آغاز کیوں اور کس لیے ہوا تھا؟ اس کی بھی ایک دل چسپ اور حیرت انگیز کہانی ہے جو پھر ان شاء اللہ پھر کبھی سہی!۔