امیر جماعت کے تین نکات

541

کچھ وکلا کی جانب سے یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ کسی حافظ قرآن کو جج کے عہدے پر تعینات نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کے مذہبی جذبات انتہائی شدید ہوتے ہیں اور وہ ان جذبات کے زیر اثر فیصلہ کرسکتا ہے، اس تجویز کا واضح مطلب ہے کہ حافظ قرآن جج خدا کی نیابت کا فریضہ ادا کرنے میں کسی دبائو یا لالچ سے مرعوب نہیں ہو سکتا وہ خدا کا نائب ہونے پر فخر محسوس کرے گا، شیطان کی جانشینی کا مرتکب نہیں ہوسکتا، گویا انہیں ایسا مفتی چاہیے جو وقت کے تقاضے کے تحت بوتل کا طلب گار ہو اور یہ کہا جاسکے کہ
سر پہ مستوں کی طرح جھوم کر بادل آئے
مفتیِ وقت کا تقاضا ہے کہ بوتل آئے
وکلا برادری اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ حافظ قرآن جج کبھی شیطان کی جانشینی نہیں کر سکتا وہ ہر حال میں خدا کا نائب ہی رہتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل عدالت میں بھرتیاں ہوئیں، تو اپائنٹمنٹ اتھارٹی کے حامل جج نے کہا جو غالباً حافظ قرآن تھے کہ بھرتی صرف میرٹ پر ہوگی، لہٰذا کسی کی سفارش نہ کی جائے، انٹرویو دے کر آنے والے امیدوار سے دیگر امیدواروں نے پوچھا کس طرح کے سوالات کیے گئے ہیں، اس نے کہا کہ میں حافظ قرآن ہوں مجھ سے صرف قرآن سے متعلق ہی سوالات کیے گئے ہیں ان میں ایک اور امیدوار بھی حافظ قرآن تھا جب اس کی باری آئی اور وہ انٹرویو دینے گیا اور کہا سر میں حافظ قرآن ہوں، مگر تم نے حفظ قرآن کا سرٹیفکیٹ تو نہیں لگایا جج صاحب نے کہا اس نے حفظ قرآن کی سند دکھائی تو جج صاحب نے نائب قاصد کو بلا کر اس کی فوٹو کاپی کرائی اور امیدوار سے قرآن سے متعلق مختلف سوالات کیے اور اس کا نام بھی کامیاب امیدواروں میں لکھ دیا جج صاحب نے کسی کی سفارش قبو ل نہیں کی تھی اس لیے رشوت کا دروازہ بند ہی رہا مگر یہ بات سینئر افسروں کو پسند نہ آئی، جھنجھلا کر ان کا تبادلہ کر دیا گیا مذکورہ جج صاحب نے کہا کہ جب تک کامیاب امیدواروں کو اپائنٹمنٹ لیٹر نہیں دیا جاتا تو وہ نئی پوسٹنگ پر نہیں جائیں گے، اور پھر یہی ہوا۔ انہوں نے کامیاب امیدواروں کو اپائنٹمنٹ لیٹر دیے اور دوسرے دن نئی پوسٹنگ پر چلے گئے۔ یہ واقعہ سنانے کا مقصد یہ ہے کہ حافظ قرآن جج خدا کی نیابت کے منصب سے چشم پوشی کا مرتکب نہیں ہوسکتا آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی حافظ قرآن ہیں، ان کا حافظ قرآن ہونا بھارت کے لیے تو باعث تشویش ہو سکتا ہے مگر مسلک عمرانیہ کو کیا پریشانی ہے، کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کو ایک سپارہ حفظ تھا وہ 11برس تک ہمارے سروں پر مسلط رہا۔ جنرل عاصم منیر تو پورے قرآن کے حافظ ہیں خدا جانے کب تک مسلط رہیں گے، اگر ان کی پریشانی پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ قومی خزانے پر ڈاکا زنی اور ملکی وسائل پر قابض ہونے والوں کی پریشانی کا سبب یہ ہے کہ فوجی حکومت ان کو احتساب پر مجبور کر سکتی ہے، دوسروں کو چور ڈاکو کہنے والوں کو بھی ڈاکا زنی اور قومی خزانے کو لوٹنے کا حساب دینا پڑے گا اور قوم اس حقیقت سے آگاہ ہو جائے گی کہ سیاست کو تجارت سمجھنے والے قوم و ملک سے کبھی مخلص نہیں ہوسکتے، کیونکہ تاجر کوئی بھی ہو اس کی نظر میں اہمیت منافع کی ہوتی ہے۔
امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق بارہا ملک اور قوم کی فلاح و بہبود سے متعلق مشورے دے چکے ہیں مگر نقار خانے میں توتی کی آواز سننے پر کوئی آمادہ ہی نہیں، یادش بخیر عدم اعتماد کی تحریک کی مخالفت کرتے ہوئے پی ڈی ایم کو سمجھایا تھا کہ تھوڑا صبر کرو عمران خان کی حکومت چند دنوں کی مہمان ہے، کسی بھی لمحے وہ زمیں بوس ہو سکتی ہے، مگر تمہاری تحریک عمران خان کو نئی زندگی دینے کا باعث بن سکتی ہے اور اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ تمہاری تحریک عدم استحکام کی تحریک بن جائے، مہنگائی کا سرکش گھوڑا اس طرح پٹخے گا کہ عوام تمہاری صورت دیکھنا بھی گوارا نہیں کریں گے۔ اور عمران خان کی واپسی ٹارزن کی واپسی بن سکتی ہے، مگر میاں شہباز شریف کو اپنی شیروانی کی فکر تھی وہ ہر قیمت پر اسے پہننا چاہتے تھے موصوف نے شیروانی تو پہن لی مگر شیر بلی بن گیا، بھیگی بلی۔
آرمی چیف کی تعیناتی کے موقع پر بھی امیر جماعت اسلامی نے کہا تھا کہ یہ معاملہ سیاستدانوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا بہتر ہو گا کہ سینئر جنرل کو فوجی قیادت سونپ دی جائے اس معاملے پر بہت شور و غوغا برپا کیا گیا، امیر جماعت کے خلاف پروپیگنڈا بھی کیا گیا، مگر سینئر جنرل ہی کو آرمی چیف بنایا گیا، اگر عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے والے امیر جماعت کی تجویز پر غور کرتے تو حالات مختلف ہوتے بلکہ بہت مختلف ہوتے سیاسی بحرانوں سے نجات پانے کے لیے امیر جماعت نے تین نکات پیش کیے ہیں اگر ان پر عملدرآمد کرایا جائے تو سیاسی بحران ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا، مگر المیہ یہ ہے کہ وطن عزیز کا ہر بااختیار شخص برتری کے جذام میں مبتلا ہے اور بدنصیبی یہ بھی ہے کہ یہ جذام بصیرت کا ہے، جو ناک کے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے امیر جماعت نے جو تین نکات پیش کیے ہیں، ان میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ سویلین بالادستی قائم کی جائے کیونکہ جمہوریت اسی صورت پھل پھول سکتی ہے اور ثمر بار ہوسکتی ہے۔ دوسرا نکتہ الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری اور تیسرا نکتہ یہ ہے کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دوری اختیار کرنا چاہیے۔ مگر مقتدر طبقہ ان نکات پر عملدرآمد کرنا تو کجا ان پر غور کرنا بھی گوارہ نہیں کرے گا کیونکہ ان کی غیر جانبداری سے قانون کی حکمرانی کا بول بالا ہوگا جو انہیں کسی قیمت پر قابل قبول نہیں ہوسکتا۔