پاک افغان تعلقات خراب کرنے کی سازش

540

کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر گزشتہ دنوں حملہ ہوا ہے اور اسی روز افغانستان کی مجاہدین کی جماعت حزب اسلامی کے ہیڈ کوارٹر پر بھی حملہ ہوا ایک ہی روز میں دو اہم مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے کے وقت حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار ہیڈ کوارٹر میں موجود تھے۔ ان حملوں کے اگلے دن یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ داعش نے اعتراف کیا ہے کہ یہ حملہ ہم نے کیا ہے۔ داعش کو جاننے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ دولت اسلامیہ عراق اور شام ہے پھر اس کا افغانستان سے کیا جھگڑا لیکن افغانستان میں پاکستانی سفارت خانے کو نشانہ بنانے کا واضح مقصد پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب کرانا تھا۔ جو بڑی مشکلوں سے بہتری کی جانب جارہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں پاکستان کے دوست گروپوں کو بھی پیغام دینا تھا اسی لیے گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کے ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے داعش کی جانب سے مبینہ اعتراف کے دعوے کے بارے میں کہا تھا کہ پاکستان اس کی تحقیق کر رہا ہے کہ آیا یہ دعویٰ درست ہے یا غلط لیکن ایک روز بعد افغان طالبان نے اصل بات ظاہر کر دی کہ دراصل پاکستانی سفارت خانے پر حملہ غیرملکی سازش ہے۔ امارات اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ حملے میں مذموم غیر ملکی حلقے کارفرما ہیں اس حملے کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان بداعتمادی پید اکرنا تھا۔ یہ بیرونی حلقے کون ہو سکتے ہیں، یہ معلوم کرنے کے لیے کسی لمبی چوڑی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ افغانستان میں طالبان کی آمد سے جن حلقوں کو سب سے زیادہ تکلیف ہوئی ہے وہ امریکی اور بھارتی حلقے ہیں۔ یہ بات بہت واضح ہے کہ بھارت توکھل کر پاکستان کے خلاف ہے لیکن امریکا کو بھی پر امن افغانستان کسی صورت منظور نہیں۔ اس لیے وہ پاکستان سے دوستی اور اچھے تعلقات کا دم بھرنے کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات کرتا ہے یا ان کی پذیرائی کرتا ہے جو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب کرنے والے ہوں اور کم از کم افغان طالبان کی حکومت کو مستحکم کرنے میں مدد دیتے ہوں۔ امریکا ایک مستحکم پر امن افغانستان کبھی برداشت نہیں کرے گا۔ دنیا بھر کے درجنوں ممالک میں براہ راست جنگیں لڑنے والے جنگی جنونی امریکی حکمرانوں کے لیے کروڑوں ڈالر افغان حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے خرچ کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ وہ اربوں ڈالر پھونک کر بھی افغانستان سے شکست کھا کر ہی نکلا ہے اسلیے وہ تو کسی طور بھی وہاں امن اور پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات نہیں چاہے گا یہی معاملہ بھارت کا بھی ہے کہ وہ سابقہ افغان حکومت کے دور میں دو درجن فرنٹ آفسز کے ذریعے پاکستان کے خلاف مہم جوئی میں مصروف تھا اس کی بدمعاشی بھی ختم ہو گئی ہے۔ افغان عوام میں پاکستان کے خلاف پروپیگینڈا بھی بھارتی ایجنٹ کرتے رہے تھے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بتایا ہے کہ گرفتار ملزم کا تعلق داعش سے ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو۔ جس طرح پاکستان میں آج کل ہر گرفتار ملزم ٹی ٹی پی، داعش اور طالبان کا یا القاعدہ کا کارندہ قرار پاتا ہے بعد میں کسی دعوے کی تصدیق نہیں ہوتی۔ اسی طرح ابتدائی تحقیق تو یہی بتا رہی ہے کہ داعش کا تعلق ہے لیکن چونکہ یہ تنظیمیں کسی ملک میں باقاعدہ وجود نہیں رکھتیں یا ان کا کوئی دفتر نہیں ہوتا اس لیے انٹر نیٹ، ٹوئیٹر یا کسی سماجی رابطے کے ذریعے یہ دعویٰ کر دیا جاتا ہے۔ ایک برس سے کچھ زیادہ گزرا ہے کہ ایسے ہر حملے کے بارے میں افغان طالبان کی جانب سے اعتراف کی خبر جاری ہو جاتی تھی لیکن ان کے قطر دفتر اور اب افغانستان میں ان کی حکومت آنے کے نتیجے میں ایسے اعترافی بیانات آنا بند ہو گئے۔ اگر ان کی حکومت نہ ہوتی تو یہ اعترافی بیان طالبان کے نام سے آتا۔ کون تصدیق کرتا پھرے۔ اگر داعش اور القاعدہ بھی کسی ملک میں حکمران ہو جائیں تو یہ دعوے کسی نئی تنظیم کے نام سے سامنے آنے لگیں گے۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ ایسی کارروائیوں سے فائدہ کس کو ہوتا ہے اور نقصان کس کو… تو اس حملے بلکہ ان حملوں کا نقصان افغانستان کو اور فائدہ امریکا اور بھارت کو ہوتا تھا اس لیے ایسے کسی اعتراف کی کوئی ٹھوس حیثیت نہیں ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو اپنی اندرونی کھینچا تانی والی مصروفیات سے وقت نکال کر پاکستان کو مضبوط کرنے والے کام کرنے ہوں گے۔ پاکستان کی یہ اہمیت مسلّم ہے کہ امریکا، چین، روس، بھارت اور خود افغانستان کو پاکستان کی ضرورت ہے اس لیے پاکستان اپنی ضرورت اور اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی پالیسیاں ترتیب دے۔ آج کا دوست کل دشمنی پر بھی اتر سکتا ہے اور کل کا دشمن دوستی پر بھی آمادہ ہو سکتا ہے۔ اس کی مثال روس کی ہے جس کے خلاف پاکستان نے دس سال جدوجہد کی آج وہ پاکستان سے دوستی کو تیار ہے۔ اور وہی امریکا جو روس کو وہاں سے نکالنے کے لیے پاکستان پر مہربانیاں کر رہا تھا آج پاکستان کا ناطقہ بند کرنے پر تلا ہوا ہے اسی طرح جس چین کے سی پیک پر پوری قوم کو ایمان لانے کا مشورہ دیا جاتا ہے کل اس کے مفادات ٹکرائے توپاکستان کے خلاف اقدامات میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ چین کے اقدامات امریکہ یا بھارت جیسے نہیں ہوں گے۔ وہ معاشی طور پر مفلوج کرنے کے صلاحیت رکھتا ہے پاکستانی حکمرانوں نے سی پیک میں کن شرائط پر معاہدے کیے ہیں اس کا آج تک قوم کو پتا نہیں چلا۔ لہٰذا دنیا کے آزاد ملکوں کی طرح پاکستان بھی اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر معاہدے کرے بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہیں ملک کے نہیں۔ قوم کو مستقل تماشوں میں الجھا رکھا ہے۔