کمانڈ اسٹک کی منتقلی

457

افواج پاکستان کی کمانڈ اسٹک جنرل قمر جاوید باجوہ سے جنرل عاصم منیر کو منتقل ہوگئی۔ ڈھائی فٹ کی یہ جاودئی چھڑی فوجی سربراہ کی طاقت، اختیار اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کی علامت ہوتی ہے۔ کمانڈ اسٹک کی تبدیلی یہ تقریب کم وبیش دو عشرے قبل کی اس تقریب کی طرح بے رنگ اور بے تاثر تھی جب راولپنڈی کے ریس کورس گراونڈ میں جنرل پرویز مشرف نے کمانڈ اسٹک اپنے جانشین جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے کی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب فوجی حکمران کے طور پر جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک دہشت گردی کے بدترین دور سے گزر رہا تھا۔ لال مسجد واقعے اور آپریشن راہ راست کے ردعمل میں ملک میں خودکش حملوں کا ایک سیلاب آچکا تھا۔ فوجی تنصیبات محفوظ تھیں نہ کوچہ ٔ و بازار میں انسانی جانوں کی کوئی ضمانت تھی۔ زمین پر خود کش حملہ آور شب ِ دہشت طاری کیے ہوئے تھے تو آسمان سے ڈرون بے گناہوں پر قیامت ڈھائے ہوئے تھے۔ قبائلی علاقوں میں ایک مخصوص قسم کی مذہبی دہشت گردی عروج پر تھی کراچی میں لسانی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا راج تھا اور بلوچستان میں قوم پرست دہشت گردی ملک کی چولیں ہلا رہی تھی اور جنرل پرویز مشرف اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی تدبیروں میں مگن تھے۔ وکلا تحریک ملک میں سیاسی مزاحمت اور بیداری کی تحریک میں ڈھل کر جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کی چولیں ہلا چکی تھی۔ ایسے میں ملک وقوم کو تازہ ہوا کے خوش گوار جھونکے کی ضرورت تھی۔ لوگ پبلک جلسوں میں ’’چلے بھی جائو کہ گلشن کا کاروبار چلے‘‘ کے بینر لہرا رہے تھے۔
جنرل مشرف صرف فوج کے سربراہ ہی نہیں بلکہ ایک مطلق العنان حکمران بھی تھے۔ اس لیے ان کے خلاف بڑھتا ہوا غم وغصہ عوام کے اندر اپنی گہری جڑیں رکھتا تھا۔ ریس کورس گراونڈ میں جنرل پرویز مشرف کی آنکھوں میں تیرتی نمی بتارہی تھی کہ اب بطور حکمران ان کے کمزور ہونے کا عمل شروع ہوا چاہتا ہے۔ جنرل مشرف خود کو فوج کا فکری راہنما بنا کر پیش تو کرتے تھے مگر حقیقت میں ایک پروفیشنل اور لمحہ ٔ موجود میں کام کرنے والے ادارے ظل سبحان، مدظل العالی، روحانی پیشوا اور فکری راہنما کا بوجھ نہیں اُٹھاتے نہ ہی کوئی فوج کا ’’گارڈ فادر‘‘ بننے میں کامیاب ہوتا ہے۔ فوج کا فکری راہنما وہی ہوتا ہے جو اس کا عملی راہنما ہوتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی طرف سے کمانڈ اسٹک کی منتقلی کے بعد جنرل کیانی اور جنرل راحیل کی طرف سے چھڑی منتقل کی گئی مگر یہ دو تقریبات عوام کی زیادہ توجہ نہ پاسکیں کیونکہ یہ روایتی تبدیلی ہی رہی۔ اس بار چھڑی کی تبدیلی جنرل پرویزمشرف کی چھڑی کی منتقلی کا رنگ لیے ہوئے تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ملک آج انتہائی بدتر حالت میں ہے۔ اقتصادی طور پر ملک دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہے اور سیاسی طور پر تقسیم گہری ہو چکی ہے۔ ملک میں چودہ جماعتوں کی حکومت قائم ہے مگر حالات ’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘ کی عملی تصویر بن چکے ہیں۔ چودہ جماعتی حکومت اپنے راہنمائوں پر قائم بدعنوانی کے برسوں پرانے مقدمات ختم کرنے کے سوا کوئی کام نہیں کر سکی۔ اس حکومت کے قیام میں جنرل باجوہ کی پسند وناپسند کا گہرا دخل تھا۔ عمران حکومت کو ہر مشکل سے نکالنے کا دعویٰ کرنے والی جادوئی چھڑی سات ماہ میں اقتصادی حالت بہتر بنانے میں موجودہ حکومت کی مدد نہ کرسکی۔ دنیا کا کوئی بھی ملک موجودہ معاشی مشکلات کی ٹھوس مدد پر آمادہ نہ ہوسکا۔ سات آٹھ ماہ ہوگئے نہ سیاسی استحکام کی برکھا برسی اور نہ ہی اقتصادی خوش حالی کی ہوا کے کسی کوئی جھونکے کا گزر ہوا۔ ملک کی اقتصادی حالت پہلے سے زیادہ بگڑ کر رہ گئی۔ ملک میں امن بھی اب دائو پر لگا ہوا ہے کیونکہ ٹی ٹی پی نے اپنی کارروائیوں کا آغاز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ملک کا مقبول لیڈر عمران خان سڑکوں پر ہے اور سات ماہ میں عمران خان کو مینج کرنے کی ہر کوشش ناکام ہو چکی ہے اور اس کوشش میں کئی حماقتیں سرزد ہو چکی ہیں۔
فوج اور عوام میں دوری اور خلیج میں اضافہ ہورہا ہے اور اس بار کی خلیج کا فرق یہ ہے کہ آج سوشل میڈیا کے ہتھیار سے لیس نسل میدان میں کھڑی ہے۔ یہ نسل آگہی اور ابلاغ کی کہکشائوں میں سفر کر رہی ہے اور اس کو مینج کرنے کے لیے پچھتر برس پرانے طریقے آزمائے جا رہے ہیں۔ ایسے میں جنرل قمر جاوید باجوہ جب کمانڈ اسٹک اپنے جانشین جنرل عاصم منیر کو منتقل کر رہے تھے تو وہ اس ڈھائی فٹ کی چھڑی کے ساتھ چھے سالہ دور کے مسائل اور چیلنجز بھی انہیں منتقل
کر رہے تھے۔ جنرل باجوہ اپنے پیچھے ایک متنازع اور منقسم ورثہ چھوڑ کر چلے گئے۔ جلد ہی گمنام ہو جانے کا ان کا بات شاید ہی درست ثابت ہو۔ ان کی پالیسیاں جنرل مشرف کی طرح ایک مدت تک ملک ومعاشرے پر اپنے اثرات کے باعث زیر بحث رہیں گی اور ان پالیسوں کے اثرات ونتائج انہیں گمنام نہیں ہونے دیں گی۔ جنرل باجوہ نے اقتصادیات پر توجہ مرکوز کرنے کی خاطر کشمیر کو نظر انداز کرکے بھارت سے تعلقات اور تجارت کی بحالی کا کام اپنے ذمے لیا تھا۔ پاکستان میں یہ کام بارودی سرنگوں پر رقص کے مترادف رہا ہے اور اس کرتب کو دکھانے کے شوق میں کئی فوجی اور سیاسی حکمران سیاسی منظر سے غائب ہو کر نشان ِ عبرت بنتے رہے ہیں۔ جنرل مشرف کے اقتدار کے ٹائی ٹینک کے لیے آئس برگ کا کام چیف جسٹس افتخار چودھری کی طرف سے استعفے سے انکار نے دیا تو جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع اور فیصلہ سازی میں غالب رہنے کی خواہشات کے ٹائی ٹینک کے لیے عمران خان کے استعفا دینے سے انکار نے یہ کام کیا۔ افتخار چودھری کی طرح عمران خان خم ٹھونک کر میدان میں نکل آئے تو جنرل قمر جاوید باجوہ کی کمزوری کا آغاز ہوتا چلا گیا اور معاملات ان کی بند مٹھی سے ریت کی مانند نکلتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ حالات کا دھاگہ اس قدر اُلجھ کر رہ گیا اس کو سلجھانے کے لیے کمانڈ اسٹک کی منتقلی کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا۔ یوں جنرل مشرف کی طرح جنرل قمرجاوید باجوہ کی طاقت کے فلک بوس چنار کو بھی ایک استعفے کا دیمک کھوکھلا کر گیا۔