جوائے لینڈ کا قصّہ

699

پنجابی زبان کی ایک فلم پاکستان میں تیار ہوتی ہے۔ فلم کا ڈائیرکٹر پاکستانی، اداکار پاکستانی، فلم بندی پاکستان میں لیکن حیرت انگیز طور پر پروڈیوسرز کی لمبی لسٹ جس میں ہندوستانی نژاد امریکی اور یہودی بھی شامل۔ لیکن عجیب بات ہے کہ پاکستانی معاشرے کے لیے بننے والی فلم اپنی نمائش سے پہلے کانز (cannes) فلم میلے میں پیش کی جاتی ہے جہاں فلم کو کوئیر پام (Queer palm) ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے۔ کیوں؟ اس سوال کے جواب سے پہلے سمجھتے ہیں کہ یہ کوئیر پام ایوارڈ ہے کیا؟ کانز فلم میلے میں ٹرانس جینڈر یا (LGBT) کے موضوع دیا جانے والا ایوارڈ کوئیر پام ایوارڈ کہلاتا ہے۔ مغربی صحافی ’’فرانک فینانس‘‘ کے مطابق 2010 سے دیا جانے والا یہ انعام یا ایوارڈ LGBT+ فلموں یا صنفی شناخت کو مسخ کرنے والی فلموں کے لیے مخصوص ہے۔ یہاں تک یہ بات تو واضح ہوگئی کہ اس فلم کا مرکزی خیال ہم جنس پرستی ہے اور اسی لحاظ سے اس میں قابل اعتراض مناظر اور ڈائیلاگ شامل ہیں۔ یہ ہے اصل وجہ اس فلم کو کوئیر ایوارڈ دیے جانے کی۔ دراصل اس طرح ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک طرف تو پاکستانی معاشرے میں ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کی کوشش کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی گئی دوسرے مغرب ہماری قوم کی غلامانہ ذہنیت سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ گوروں کی سند یافتہ ہر شے ہمارے لیے معیار کا پیمانہ ہے اس لیے مغربی ایوارڈیافتہ فلم کو ہمارے معاشرے میں بآسانی پسندیدگی حاصل ہو جائے گی۔ اسی مقصد سے ہر طرح کے میڈیا میں فلم کے عالمی ایوارڈ یافتہ ہونے کا خوب خوب ڈھنڈورہ پیٹا گیا اور دجالی میڈیا یہ تاثر قائم کرنے میں خاصا کامیاب بھی ہوگیا کہ اب پاکستان میں بھی ایسی شاہکار فلمیں بننے لگی ہیں جنہیں عالمی سطح پر سراہا جارہا ہے۔
ایل جی بی ٹی ایجنڈے کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی طاقت اور اثر رسوخ کا اندازہ کیجیے کہ فلم کی حقیقت سامنے آنے پر مرکزی سینسر بورڈ نے اس پر پابندی لگادی تھی مگر وزیر اعظم نے مداخلت کرکے ایل جی بی ٹی پلس تھیم کی حامل اس فلم کو نمائش کے لیے منظوری دلوائی۔ حکومت کا یہ اقدام سراسر غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ اس لیے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور دستور کے آرٹیکل 31 میں اسلامی طرز زندگی کو فروغ دینا ریاست کی ذمے داری ہے۔ یہ فلم پاکستانی معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دینے کا باعث ہے جبکہ آئین کا آرٹیکل 37 بے حیائی اور فحاشی کے سدباب کو ریاست کی ذمے داری قرار دیتا ہے۔ اس طرز کی فلمیں اور ڈرامے ہمارے خاندانی نظام کو تباہ برباد اور ہمارے بچوں کو اخلاق باختہ بنادیں گے جبکہ آئین کے آرٹیکل 35 میں ریاست کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ خاندانی نظام، بچے اور ماں کا تحفظ کرے۔
آئیے اب ایک نظر ڈالتے ہیں اس فلم کے کرداروں اور کہانی پر۔ فلم کے ڈائریکٹر اور مصنف صائم صادق ہیں۔ مرکزی کردار علی جونیجو نے ادا کیا ہے۔ دوسرے مرکزی کردار میں علینہ خان نامی ٹرانس جینڈر نے اداکاری کی ہے۔ جبکہ ٹی وی کی معروف اداکارہ ثانیہ سعید اور ثروت گیلانی نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے جس پر ہمیں خاصی حیرت ہے کیونکہ ثانیہ سعید ایک سنجیدہ اور باوقار اداکارہ کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ ایک میڈیا ٹاک میں ثانیہ نے اعتراف کیا ہے کہ ’’اس فلم کا موضوع بالغان کے لیے ہے‘‘ جبکہ فلم ڈائریکٹر صائم صادق کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایک فیملی فلم ہے اور مجھے یہ بالکل اپنے گھر کی کہانی لگتی ہے‘‘۔ ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ ’’صائم صادق صاحب! یہ کہانی آپ کے گھر کی تو ہوسکتی ہے لیکن غیرت مند پاکستانی معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں۔ آپ اپنے گھر کی کالک مسلم معاشرے پر لیپنے کی کوشش نہ کریں‘‘۔
فلم کے پروڈیوسرز میں ’’اپوروا گرو چارن‘‘ نامی ہندوستانی نژاد امریکی سمیت کئی امریکی یہودی اور پاکستان سے سرمد کھوسٹ اور ثنا جعفری بھی شامل ہیں۔ پاکستانی فلم انڈسٹری بہت چھوٹی سی ہے لیکن ایک پاکستانی فلم کے اتنے زیادہ غیرملکی پروڈیوسرز کا ہونا واضح دلیل ہے کہ یہ فلم مخصوص ایجنڈے پر بنائی گئی ہے۔
فلم کی کہانی میں لاہور کی ایک رانا فیملی دکھائی گئی ہے جس میں دو بھائی کلیم اور حیدر اپنے معذور والد کے ساتھ رہتے ہیں۔ دونوں شادی شدہ ہیں۔ چھوٹا بھائی حیدر ایک تھیٹر میں ایگزوٹک ڈانس گروپ جوائن کرتا ہے جہاں اسے ٹرانس جینڈر مرد سے محبت ہوجاتی ہے۔ پوری فلم کی کہانی اس ناجائز، غیر اخلاقی اور غیر قانونی تعلق کے گرد گھومتی ہے جس میں فلم کی ضرورت کے مطابق واہیات مناظر اور غیر اخلاقی ڈائیلاگ کی بھرمار ہے۔ حتیٰ کہ حیدر کی بیوی کا ناجائز تعلق بڑے بھائی کلیم سے اور دونوں بھائیوں کے معذور والد کا تعلق پڑوسن سے دکھایا گیا ہے۔ اور لب لباب یہ ہے کہ اگر کوئی سچا پیار ہے تو وہ مرد کا مرد سے ہے۔ اتنے گھٹیا کردار کے حامل مرد کو ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اسے مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور ڈائیریکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ’’یہ فیملی فلم ہے‘‘؟ ان تمام لوگوں نے مل کر معاشرے کے لیے زہر قاتل مواد کو فلم کے خوبصورت ریپر میں پیک کرکے دکھانے کی کوشش کی ہے۔ درحقیقت یہ فلم بھی معاشرے کو بگاڑ کی جانب لے جانے والے ان اقدامات کا تسلسل ہے جو گزشتہ کچھ سال سے کیے جارہے ہیں۔ اسی کے تحت خواجہ سراؤں کے حقوق کے نام پر پارلیمنٹ سے ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ دو ہزار اٹھارہ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کے تعاون سے منظور کروایا گیا اور اس کے جائزے کے بعد واحد جماعت اسلامی تھی جس کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی اور عوامی سطح پر جماعت اسلامی نے اس بل کی حقیقت واضح کی۔ سینیٹر مشتاق صاحب نے ہی اس ایکٹ میں ترمیم کے لیے سفارشات پیش کیں۔ اسی طرح کراچی میں ایل جی بی ٹی کا مخصوص جھنڈا لہرانے کا واقعہ ہو یا ہر سال عورت مارچ کا انعقاد، یا پھر حالیہ دنوں ہونے والا مورت مارچ، یہ سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
فلمیں اور ڈرامے، آہستہ آہستہ ذہن سازی کرتے ہیں۔ اس طرح کی فلمیں دراصل سوسائٹی میں موجود اخلاقی بیرئر توڑنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ سینما اور ٹی وی اسکرین میں ان کی نمائش کا مقصد اس موضوع کو نارمل اور عام بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔ ایک دور تھا جب ٹی وی پر آنے والی خواتین کے سر سے دوپٹا ہٹانے پر بھی پابندی تھی۔ کچھ وقت گزرا تو دوپٹا سرک کر شانوں پر آگیا۔ تھوڑے عرصہ بعد ایک شانے پر رہ گیا پھر بالکل ہی غائب ہوگیا۔ وجہ یہی ہے کہ لوگ عادی ہوجاتے ہیں پھر یہ معاشرے کا چلن بن جاتا ہے۔
ہر مسلمان اور مذہبی و سیاسی پارٹی کو اپنے اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے پاکستان میں ایل جی بی ٹی اور ٹرانس جینڈرز کے بڑھتے رجحان کو روکنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔ وزیراعظم شہباز شریف یاد رکھیں کہ آئندہ الیکشن میں انہیں ووٹ عوام سے لینے ہیں لبرلز سے نہیں۔ اس فلم پر فوری پابندی لگائی جائے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس فلم کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی ہے۔ ویسے یہ کسی ایک جماعت کا نہیں تمام مسلمانوں کی دینی غیرت کا معاملہ ہے اس پر سب کو یکجان ہونا ہوگا اور جماعت اسلامی یا کسی اور جانب سے اٹھنے آواز پر لبیک کہتے ہوئے مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔