کیا پاکستان کا سیاسی و معاشی منظرنامہ بدلے گا؟

536

پاکستان کے معاشی حالات سیاسی حالات کی وجہ سے بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، لوگ بھوک اور افلاس کا شکار ہیں۔ برطانیہ میں قائم ایک فلاحی ادارے ’’سیو دی چلڈرن‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 34 لاکھ سے زائد بچے شدید بھوک کا شکار ہیں، سیلاب زدہ علاقوں میں 76 ہزار بچے خوراک کی شدید قلت کا سامنا کررہے ہیں۔ سیاست اس وقت ایک ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے۔ سیاسی کشیدگی اور ٹکرائو کی کیفیت کے اثرات ملکی معیشت پر بھی نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ بے یقینی کے ان حالات میں قوم بری طرح منقسم ہے، کوئی ادارہ اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کررہا، ملک اس وقت درست سمت کی طرف چلنے کے بجائے مفادات کی جنگ کی آماج گاہ بن گیا ہے۔ وطن ِ عزیز کو اس وقت سیاسی و معاشی استحکام کی ضرورت ہے لیکن سیاسی و عسکری قیادت کو اس کا شعور نہیں ہے، گوکہ فوج نے اپنے اپ کو سیاست سے الگ رکھنے کا باربار اعلان کیا ہے، لیکن پھر کچھ دنوں کے بعد اس قسم کی خبر آجاتی ہے جس سے لگتا ہے ابھی کچھ نہیں بدلا۔ اپنے حالیہ بیان میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الٰہی نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے قبل جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ نے پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کو کہا تھا۔ مونس الٰہی نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ سوشل میڈیا پر باجوہ صاحب پر تنقید کو درست نہیں سمجھتا، یہ وہی باجوہ صاحب ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کے لیے سمندر کا رخ موڑا ہوا تھا، تب وہ ٹھیک تھے! مونس الٰہی نے ناراض ہوتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جب تک جنرل(ر) باجوہ آپ کو سپورٹ کرتے رہے تب تک ٹھیک تھے، اب غدار ہوگئے! انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’میری نظر میں باجوہ صاحب کا کردار برا نہیں تھا، اگر برا ہوتا تو وہ ہمیں عمران خان کے ساتھ جانے کا نہ کہتے‘‘۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے صاحبزادے کے ان بیانات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ غیر سیاسی نہیں تھی۔ ان حالات اور خبروں کے ساتھ ہمارا لولا لنگڑا سیاسی سفر جاری ہے، جو اس بات کی غمازی ہے کہ ہمیں ٹی وی اسکرین اور اخبارات کی شہ سرخیوں میں جو خبریں نظر آتی ہیں وہ اصل میں خبریں ہوتی ہی نہیں ہیں۔ جھوٹ، فریب اور دغا کی سیاست کا چلن عام ہے۔ حالات کیسے بدلیں گے؟ یہ آج کا سب سے اہم سوال ہے۔ موجودہ سیاسی منظرنامے میں ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر عام انتخابات کی تاریخ دی جائے ورنہ اسمبلیاں توڑ دیں گے، سیاسی استحکام کے لیے فوری الیکشن کی طرف جانا ہوگا، ہم نے بہت کوشش کی مگر یہ انتخابات کا نام نہیں لیتے۔ دوسری طرف عمران خان کے خطاب پر ردعمل میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ ’’ہمارا موقف ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں گے، خان صاحب تو کہتے تھے کہ ان کے ساتھ بیٹھنے سے بہتر ہے کہ میں مر جائوں، اللہ ان کو زندگی دے‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اسمبلیاں توڑنے کے عمل کو ویلکم نہیں کرتے، غیر جمہوری سمجھتے ہیں، اگر یہ اسمبلیاں توڑنا چاہتے ہیں تو توڑ دیں، ذمے داری ان کی ہے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم کی مذاکرات کی پیش کش پر اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کی جائے گی۔ اب یہ باتیں کب تک کسی منطقی حل کی طرف پہنچتی ہیں، یہ تو آئندہ دنوں میں معلوم ہوجائے گا، لیکن اصل بات یہ ہے کہ ملک کا یہ سیاسی منظرنامہ نیا نہیں ہے، پاکستان میں تاریخی طور پر کچھ ایسی ہی صورت حال ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی سیاست اپنی نہیں ہے، ان کا بظاہر ہر اْٹھنے والا سیاسی قدم بھی سیاسی نہیں ہوتا، یہ امر اس بات کا مظہر ہے کہ ہم جمود کا شکار ہیں، اور اس کی وجہ ہماری نظر میں سیاست دانوں کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ باہمی گٹھ جوڑ ہے۔ اب یہ نئے آرمی چیف کے آنے کے بعد کتنا تبدیل ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن اس سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کے جھوٹ پر مبنی کھیل میں ہم بہت کچھ کھوچکے ہیں۔ یہ ملک ِ خداداد تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں ایک نظریے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا تھا، تحریک ِ پاکستان محض ایک خطہ حاصل کرنے کی تحریک نہیں تھی بلکہ ایک تہذیبی اور نظریاتی تحریک بھی تھی، لیکن بدقسمتی سے ہم نے عظیم مقصد کو کہیں دور چھوڑ دیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ شدید نوعیت کے تضادات اور تصادمات کی وجہ سے معاشی مشکلات کی زد میں ہیں، کیونکہ جب منزل کی کوئی سمت نہیں ہوتی تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ وقتی مقاصد بھی حاصل نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی حکومت جن وجوہات کی بنیاد پر ختم کی گئی تھی آج بھی صورت حال وہی ہے بلکہ پہلے سے زیادہ خراب ہے، اور ہم ماضی کی طرح ویسے ہی آئی ایم ایف کے نظام میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے گزشتہ دنوں درست کہا تھا کہ ’’جب تک ہم آئی ایم ایف سے جان نہیں چھڑاتے ہمارے لیے یہ مسائل رہیں گے کیونکہ وہ ہمیں بجلی، گیس اور دوسری پیداواری چیزوں کی قیمت بڑھانے کا کہتا ہے جس سے پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور آپ کی معیشت متاثر ہوتی ہے‘‘۔ ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ جمہوری حکومتیں ہوں یا فوجی حکومتیں… ان کی معاشی پالیسی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے شروع ہوتی ہے ان پر ہی ختم ہوتی ہے۔ معاشی پالیسی کی تشکیل اور انتظام میں ان کا ہمیشہ سے انحصار انہی اداروں پر رہا ہے، اور انہوں نے کبھی بھی پاکستان کو آزاد معاشی پالیسی بنانے کا موقع دیا ہے اور نہ دیں گے۔ یہ ادارے امریکا اور مغرب کے کہنے کے مطابق کام کرتے ہیں۔ یہ ایک منظم مافیا ہے جو پوری دنیا میں اپنے ایجنٹوں کے ساتھ کام کررہا ہے۔ ان کے ایجنٹ پہلے متعلقہ ملکوں کی معیشت کو تباہ کرنے کے حالات پیدا کرتے ہیں، اور پھر جب معیشت خراب ہوتی ہے تو یہ ملک ان اداروں کے دروازے پر جاتے ہیں، جس کے بعد یہ اْن پر اپنا ایجنڈا مسلط کرتے ہیں، اور یہی کھیل ہمارے ساتھ بھی برسوں سے ہورہا ہے۔ ہمارا ملک پہلی بار 1958ء میں بیل آئوٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف کے پاس گیا، اور آج تک اْس کے نرغے سے باہر نہیں نکل سکا ہے۔ یہ ادارہ ہماری معیشت کو مزید مشکل میں ڈال رہا ہے۔ اب وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی کہہ رہے ہیں کہ ’’آئی ایم ایف اچھا سلوک نہیں کررہا‘‘، اور دوسری طرف وہ اپنی ہی جماعت سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ’’مفتاح اسماعیل سے پوچھا جائے کہ کیا بندوبست کرکے گئے؟ انہیں 32 ملین ڈالر کا بندوبست نہیں کرکے جانا چاہیے تھا؟ باتیں کرنا آسان ہوتا ہے‘‘۔ اس صورت ِ حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس بھی معیشت کو بہتر کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ اس وقت معیشت کو بہتر کرنے کے لیے قلیل المدتی اور طویل المدتی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے، اس کے لیے جہاں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے وہیں وطن ِ عزیز کے علماء، دانش وروں اور مخلص لوگوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ ملک میں اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی اور مفاد پرست سیاست دانوں کے مفاد پر مبنی اقدامات، معاشی بدانتظامی، سودی معیشت اور ناپائیدار معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں اپنی بدحالی کو ملک کے عوام کب تک برداشت کرتے رہیں گے؟