حکیم شہاب الدین کی رحلت

805

سید ابوالاعلی مودودی ؒ کے ایک اور رفیق اور خدمت گزار حکیم شہاب الدین بھی اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ حکیم شہاب الدین ان خوش نصیب لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے برسوں سید ابوالاعلی مودودیؒ، میاں طفیل محمدؒ، چودھری غلام محمدؒ، پروفیسر غفور احمد، سید منور حسن، محمود اعظم فاروقی ودیگر اکابر جماعت کے ساتھ گزرا اور ان کی عملی طور پر خدمت بھی کی۔ حکیم شہاب الدین 1939 میں برصغیر کے تہذیبی مرکز دہلی کے قریب بہادر گڑھ پیدا ہوئے اور وہ اپنی جائے پیدائش کے نام کی طرح انتہائی بہادر اور جری شخصیت کے مالک تھے۔ 1947 ہی میں قیام پاکستان کے وقت ہجرت کر کے پاکستان تشریف لے آئے اور اپنے اہل خانہ کے ہمراہ عثمان آباد میں آباد ہوگئے۔ گھر میں مالی آسودگی تھی تو اپنے گھر والوں کا ہاتھ بٹانے کے لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ ملازمت کے حصول کے لیے نکل اٹھے ان کی خوش نصیبی کے 13سال کی عمر میں انہیں آرام باغ کے قریب دفتر جماعت اسلامی میں معاون دفتر کی ملازمت مل گئی۔ حکیم شہاب الدین انتہائی ایمان داری اور جانفشانی سے دفتر میں اپنی ذمے داریاں ادا کرتے اس پر تمام ہی ذمے داران ان کے گرویدہ ہوگئے اور بہت جلد وہ جماعت اسلامی کراچی کے ناظم دفتر مقررکردیے گئے۔ اس وقت کے امیر چودھری غلام محمد ؒ حکیم شہاب الدین کی بھرپور سرپرستی اور رہنمائی فرماتے۔ میٹرک کی تعلیم کے بعد حکیم صاحب نے ادیب فاضل اور بعد میں فاضل الطب والجراحت کی سند حاصل کی۔ آپ کا شمار کراچی اہم اور ماہر طبیب میں ہوتا تھا گردے کی پتھری کے علاج کے لیے لوگ دور دراز سے ان کے پاس آتے تھے۔ عبدالستار افغانی کے دور میں بلدیہ عظمیٰ کراچی میں طبیب کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی اور گشتی شفا خانے ان کے دور ہی میں متعارف ہوئے۔
ناظم دفتر جماعت اسلامی کی حیثیت سے انہیں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ودیگر اکابرین جماعت کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مولانا ابوالاعلی مودودی ؒ جب بھی دفتر جماعت میں موجود تھے وہ حکیم شہاب الدین کے ہاتھ کی بنی ہوئی چائے نوش فرماتے اور ان کی عادت تھی کہ وہ ایک وقت میں دو کپ چائے پیا کرتے تھے۔ دفتر جماعت اسلامی میں ہونے والی شوریٰ کے اجلاس میں سید مودودی ؒ خود حکیم صاحب کو بلا کر بریانی کی دیگ بنوانے کی فرمائش کرتے تھے۔ حکیم شہاب الدین نے خود مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ میاں طفیل محمد ؒ جب دفتر میں قیام پزیر تھے تو ان کے سونے کے لیے میں ان کا بستر اٹھا کر لانے لگا تو میاں طفیل محمد ؒ نے مجھے سختی سے منع کیا اور خود وہ اپنا بستر اٹھا کرلائے اور خود انہوں نے اپنا بستر بچھایا۔
چودھری غلام محمد ؒ کے ساتھ ان کی زبردست ہم آہنگی تھی جب چودھری غلام محمد ؒ نے جسارت کی اشاعت شروع کی تو وہ حکیم شہاب الدین کو بھی جسارت لے گئے۔ حکیم شہاب الدین جسارت میں چیف پروف ریڈر کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کراچی کی خبروں کی کوریج کے علاوہ انہوں نے کالم نگاری بھی شروع کی اور ان کے کالم قارئین بہت شوق اور ذوق کے ساتھ پڑھا کرتے۔ حکیم صاحب کی اس وقت کے جسارت کے ایڈیٹر سید صلاح الدین کے ساتھ بھی بڑی نیاز مندی ہوگئی تھی اور تمام اہم معاملات میں وہ پیش پیش اور مشاورت میں شامل ہوتے تھے۔ ایوب خان کے دور میں جب جسارت کی تالہ بندی کی گئی اور جسارت کو سیل کیا گیا تو انتظامیہ نے سیل لگا کر چابی حکیم شہاب الدین ہی کے حوالے کی تھی۔
جماعت اسلامی پاکستان کے کل پاکستان اجتماع عام کے موقع پر وہ اپنا اسٹال لگاتے اور اجتماع کے شرکاء کا علاج انتہائی ارزاں پیسوں میںکرتے تھے۔ کورنگی لانڈھی آباد ہونے پر وہ لانڈھی میں رہائش پزیر ہوگئے اور لانڈھی میں ان کا شمار جماعت اسلامی کے بنیادی کارکنان میں کیا جاتا ہے۔ ان کے قریبی رفقاء میںسید آصف علی مرحوم، مولانا عبدالحئی، شہید مرزا لقمان بیگ، شہید محمد اسلم مجاہد، عبداللہ صدیقی مرحوم، حکیم احمد علی مرحوم، مولانا عبدالروف، یونس خان، صغیر خان سید مظاہر علی، فتح محمد مرحوم شامل تھے۔ ان کا مطب دفتر جماعت اسلامی کا منظر پیش کرتا تھا اور ہر وقت وہاں جماعت اسلامی کے ذمے داران اور کارکنان وہاں موجود ہوتے تھے۔ مطب میں جسارت اخبار مستقل آتا تھا اور عام افراد بھی اخبار پڑھنے کے بہانے مطب آتے تھے۔ حکیم صاحب نے لانڈھی منتقل ہوتے ہی ایک سماجی تنظیم فکر وعمل قائم کی اس تنظیم میں انہوں نے علاقے کی علمی، سماجی، دینی شخصیات کو شامل کیا اور ان پروگرامات کے ذریعے وہ جماعت کی دعوت کو بڑی حکمت کے ساتھ پیش کرتے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایوب خان کے ریفرنڈم میں فاطمہ جناح کا بھرپور طریقے سے ساتھ دیا اور فاطمہ جناح کی حمایت میں جلسے منعقد کیے اور جلوسوں کی قیادت بھی کی۔ اس کے علاوہ قومی اتحاد کی تحریک میں حکیم شہاب الدین کا گھر تحریک کا مرکز بنا اور ان کی تقریریں عوام ایک جوش اور ولولہ پیدا کر دیتی تھی۔
ایم کیو ایم کے غنڈہ گردی کے دور میں لانڈھی میں حکیم شہاب الدین چٹان کی طرح کھڑے رہے۔ جناح کیپ پہنے وہ دور ہی سے پہچان لیے جاتے تھے لیکن کبھی بھی وہ اپنے راستے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ مہاجر خیل، بیت الحمزہ ان کے گھر سے چند قدم کے فاصلوں پر ہی تھا لیکن راہ حق کا راہی فولاد کی طرح ڈٹا رہا۔ شہید مرزا لقمان بیگ کی شہادت بعد جب لانڈھی کے حالات انتہائی پر خطر تھے اس وقت کے امیر ضلع شہید محمد اسلم مجاہد نے انہیں لانڈھی زون کا امیر بنایا۔ لانڈھی ٹائون میں جب بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی گئی تو انہیں لیبر کونسلر کی نشست کے لیے لڑانے کا فیصلہ ہوا لیکن بعد میں یہ نشست انتخابی اتحاد کی نظر ہوگئی لیکن حکیم صاحب نے چوں بھی نہیں کیا اور اس ذمے داری سے بچے رہنے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ حکیم شہاب الدین نے پوری زندگی اقامت دین کی جدوجہد میں گزاری ان میں جب تک ہمت اور طاقت تھی ان کا جام نگر میں درس قرآن کا پروگرام برسوں سے ہوتا تھا اور لوگ دور دور سے ان کا درس سننے آتے تھے۔ جب نقاہت اور کمزوری بڑھ گئی تو مطب کے سامنے چارپائی ڈال کر بیٹھ جاتے اور لوگوں کے حال احوال معلوم کرتے۔ گزشتہ سال جماعت اسلامی کے ناظم حلقہ اقبال بھائی کورونا سے انتقال کر گئے تو حکیم صاحب پھوٹ پھوٹ کر روئے اور کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ میرا بیٹا فوت ہوگیا۔ اقبال بھائی کے انتقال پر وہ بڑے دل گرفتہ اور صدمے سے تھے اقبال بھائی بھی بالکل ان کے بچوں کی طرح صبح شام ان کی خبر گیری کرتے تھے۔ ان کی اچانک وفات سے حکیم صاحب ٹوٹ سے گئے تھے۔ حکیم صاحب کے تین بیٹے ہیں۔ ایک بیٹے سراج الدین کا 20سال قبل انتقال ہوگیا جبکہ بڑے بیٹے حکیم فرید الدین جو رکن جماعت ہیں اور بلدیہ عظمیٰ کراچی میں مطب چلاتے ہیں۔ ان کے دوسرے بیٹے حکیم وہاب الدین آج کل لانڈھی نمبر ایک میں حکیم صاحب کا مطب چلا رہے ہیں۔
میری اکثر اپنے دفتر جاتے ہوئے ان سے مطب میں ملاقات ہوجاتی تھی۔ بہت محبت سے پیش آتے پرانی یادوں کو تازہ کرتے میں نے ان سے یاداشت تحریر کرانے کو کہا تو ہنس کر کہنے لگے یار چھوڑ بس جو کام کرناتھا کر لیا اللہ اس کو قبول فرمائے۔ اب تو آگے جانے کی تیاری ہے دعا کرو منزل آسان ہوجائے۔ اللہ مرحوم کو غریق رحمت کرے اور جملہ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور تحریک اسلامی کے لیے ان کی گراں قدرخدمات کو قبول ومقبول فرمائے۔