ملک کو بچا لیا گیا

713

ملک کو بچا لیا گیا، سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ماضی میں یہ جملہ ہر آنے والے حکمران نے جانے والے حکمران پر طنز کرتے ہوئے بولا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے، مشرقی پاکستان الگ ہوا تو جنرل ٹکا خان نے یہ جملہ بولا تھا کہ ملک بچا لیا گیا ہے، نہ جانے یہ جملہ ایسی اہم ترین شخصیات اور حکمرانوں کے ذہن میں کیا معنی لے کر داخل ہوتا ہے ہمیں آج تک سمجھ نہیں آسکی، بھٹو کو نکالا اور جنرل ضیاء آئے تو یہی جملہ بولا گیا، جونیجو آئے تو کہا انتخابات ہوگئے ہیں ملک بچالیا گیا، جونیجو ضیاء کے ہاتھوں بے دخل ہوتے تو ضیاء نے پھر یہی جملہ دہرایا کہ ملک بچالیا گیا ہے، اس کے بعد یہی کہانی آگے چلتی رہی، نواز شریف کی جگہ بے نظیر بھٹو نے لی اور بے نظیر بھٹو کی جگہ نواز شریف اقتدار میں آئے تو یہی جملہ بولا کہ ملک بچا لیا گیا ہے، حال ہی میں عمران خان کی حکومت ختم ہوئی اور پی ڈی ایم آئی تو یہی کہہ رہے ہیں کہ ملک بچالیا گیا، اسحاق ڈار سے پہلے مفتاح اسماعیل تھے وہ بھی یہی کہہ رہے تھے کہ معیشت سنبھال لی ہے، اب ڈیفالٹ کا خطرہ نہیں، ان کی جگہ اسحاق ڈار آگئے تو مفتاح کہہ رہے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ کی جانب لڑھک رہا ہے، کس کی بات مانی جائے کس کی رد کی جائے، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔
کچھ عرصہ ہوا ایک لفظ ڈاکٹرائن متعارف ہوا، جنرل ضیاء آئے تو وہ جہاد افغانستان کے تجربے کو مقبوضہ کشمیر میں استعمال کرنا چاہتے تھے، ان کے بعد جنرل بیگ آئے، پھر جنرل جنجوعہ اور جنرل وحید کاکڑ ان سب کی اپنی اپنی ڈاکٹرائن تھی، جنرل جہانگیر کرامت نے تجویز دی کہ نیشنل سیکورٹی کونسل بنائی جائے، نواز شریف کی ڈاکٹرائن جاگی اور ان سے استعفا مانگ لیا، ان کی جگہ جنرل مشرف آئے، ان کی اپنی ڈاکٹرائن تھی، نائن الیون ہوا تو انہوں نے وہ ساری فصل کاٹ ڈالی جس کی آبیاری جنرل ضیاء کے دور میں ہوئی تھی رہی سہی کسر آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد نے نکال دی، یہ سب تبدیلیاں اور ڈاکٹرائن ہمیں یہی خبر دیتی رہیں کہ ملک بچا لیا گیا، یہ سب کچھ درست ہے، تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا ہی ہے جیسا کہ حکمرانوں نے اپنے ان غیر معمولی فیصلوں کے وقت دعویٰ کیا تھا، ہمیں ان دعوئوں سے قطعاً اختلاف نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے عمران پروجیکٹ کی فصل خود ہی اگائی اور پھر خود ہی اپنے ہاتھوں سے کاٹ دی، اب بھی یہی کہا گیا کہ ملک بچا لیا گیا ہے… حضور ہم کس کی بات مانیں؟ اسحاق ڈار کی یا مفتاح اسماعیل کی؟ جنرل ضیاء کی ڈاکٹرائن درست مانیں یا جنرل مشرف کی؟ کچھ تو نیک و بد ہمیں سمجھایا جائے۔ ابھی حال ہی میں جنرل باجوہ اپنی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کے بعد ریٹائر ہوگئے ہیں، جنرل عاصم منیر ان کی جگہ آئے ہیں، یہ ہمارے سپہ سالار ہیں، یقینا ان کی بھی اپنی ڈاکٹرائن ہوگی، بالکل ہوگی اور ہونی چاہیے، اب ایک نئی ڈاکٹرائن ہے کہ پولٹیکل… بالکل درست…، مگر صرف یہ بتا دیا جائے کہ فوج کو سیاست سے الگ کرکے کیا اسے آئینی ذمے داری سے بھی الگ کردیا جائے گا؟
ماضی میں کہا جاتا تھا کہ اصغر خان نے خط لکھا اور جنرل ضیاء کو دعوت دی، تحریک استقلال نے کبھی اس کی تصدیق نہیں کی ہمیشہ کہا کہ یہ بات درست نہیں، تاہم یہ بات مشہور ہوئی اور معروف سمجھی جاتی رہی… ہاں ہمیں اب یقین ہے کہ واقعی اب معاملہ ماضی سے کٹ کر ایک نئی دنیا اور نیا جہاں آباد کرنے کی سوچ اپنا لی گئی ہے، لیکن یہ جو سوشل میڈیا ہے اسے کون لگام ڈالے گا جس پر جو جس کے منہ اور جی میں آتا ہے کہہ رہا ہے اور لکھ رہا ہے، سوشل میڈیا کی یہ فصل دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات سے قبل بوئی گئی تھی اور مقصد بھی خوب واضح تھا مگر عدم اعتماد کی تحریک کی درانتی سے یہ فصل اب کاٹی جاچکی ہے لیکن اگلی فصل بونے کے لیے ابھی زمین ہموار نہیں ہورہی ہے، ماضی ہمیں اندرونی محاذ پر دہشت گردی، انتہاء پسندی اور پھر دہشت گردی کی باقیات کا سامنا رہا، جنرل باجوہ نے اس سے خوب نمٹا، ان سب سے نمٹ لیا … تاہم ایک فیصلہ ہے جو بھارت نے پانچ اگست دوہزار انیس کو کیا، مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ہی تبدیل کرڈالی اور ابھی وہ رکا نہیں ہے مزید قانون سازی کیے چلاجارہا ہے۔ اس کی راہ روکنے کے لیے ایک قومی سطح کی ڈاکٹرائن چاہیے… تاکہ قوم اصل حقائق تک پہنچ سکے، کشمیری عوام اپنا حق رائے شماری، جس طرح اقوام متحدہ نے کہا ہے اس کے مطابق حاصل کرسکیں اگر یہ منزل حاصل کرلی گئی تو پھر برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا بھی مکمل ہوجائے گا، بس قومی قیادت مصلحت کے ’’قرنطینہ‘‘ سے باہر نکلے… تو سب کچھ ہوجائے گا ورنہ تاریخ لکھی جاتی رہے گی اور کہرام برپا رہے گا۔ پھرساری زندگی صفائیاں ہی دی جاتی رہیں گی۔
جنرل عاصم منیر کے سامنے جو چیلنج ہیں ان میں سب سے پیش پیش پروفیشنل نوعیت کے چیلنج ہیں، فوج کا اصل کام تو سرحدوں کی حفاظت ہے اس کے لیے دوسرے کام ثانوی نوعیت کے حامل ہیں وہ جس فوج کے سربراہ مقرر کیے گئے ہیں اس کی اولین ذمے داری ملک کو دشمن سے محفوظ رکھنا ہے اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو نہ بھولنے والا سبق سکھانا بھی اس کی ذمے داری ہے، ہماری مشرقی سرحد پر یہ صورت ِ حال کوئی نئی نہیں کئی بھارتی جرنیل آئے اور اس طرح کے جارحانہ بیانات دے کر رخصت ہو گئے ہمارا اصل اور فوری مسئلہ اپنے مغربی بارڈر ہے شاید ہمیں ردالفساد اول کے ایام میں پاک فضائیہ کی طرف سے لانچ کیے گئے آپریشنوں کی طرف بھی لوٹنا پڑے گا۔