ایک اور ناتمام ’’ڈاکٹرائن‘‘ کا اختتام

563

جنرل قمر جاوید باجوہ فوج کی سربراہی سے سبکدوش ہوگئے اور ان کی جگہ جنرل عاصم منیر نے اپنا منصب سنبھال لیا ہے۔ جمہوری ملکوں میں فوجی قیادت کی آمد ورفت معمول کی کارروائی ہوتا ہے مگر پاکستان جو پچھتر سال سے سیاسی استحکام کی منزل سے دور کبھی سیاسی اور کبھی فوجی حکمرانی کے تجربات سے گزرتا آرہا ہے فوج کی قیادت میں تبدیلی اچھا خاصا میلہ لگانے کا باعث بنتی ہے۔ اس بار تو اس میلے کی رونقیں کچھ زیادہ ہی زوروں پر رہیں اور یوں لگ رہا تھا کہ کوئی جنرل الیکشن ہورہا ہے۔ پاکستان دنیا میں کئی حوالوں سے منفرد ہے یہ انفرادیت بھی اسی کے حصے میں آئی ہے کہ فوج کے سربراہ کی تبدیلی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ اب تو پاکستان کے اندر ہی نہیں بیرونی ممالک بھی اس تبدیلی کو گہری نظر سے دیکھتے ہیں۔ کچھ یہی معاملہ اس بار کی تبدیلی کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ سب سے زیادہ بھارت کو اس تبدیلی کے اثرات اور مستقبل کے امکانات اور خدشات کے حوالے سے شدید بے چینی ہے۔ اس بے چینی کی وجہ ان کے اندر کا خوف اور روگ ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کی رخصتی کے آئینے میں ان کے دفاعی تصور کو دیکھا جا رہا ہے۔ جسے ’’باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ حقیقت میں جنرل پرویز مشرف کے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ نعرے، تصور اور پالیسی کا احیاء ہی تھا اور پرانی بوتل پر نیا لیبل لگایا تھا۔ اس تصور کے مطابق پاکستان کو ماضی کی جنگ وجدل اور لڑائیاں چھوڑ کر اب اقتصادیات پر توجہ دینا ہے اور نہ صرف اپنے لیے امن کو یقینی بنانا ہے بلکہ علاقائی ملکوں میں بھی امن کے لیے کام کر نا ہے۔ ماضی سے ہی اس تصور کا تضاد یہ ہے کہ مشرقی سرحد یا واہگہ بارڈ پر امن ومحبت تجارت، موم بتیاں کبوتر غبارے رنگ ونور کی برسات اور مغربی سرحد یعنی طورخم پر گولیاں خون لاشے، گرفتاریاں الزامات پابندیاں۔ مشرق کی طرف امن کی ہوائیں چلیں اور مغرب سے خون اور بدامنی کا کھیل چل رہا ہو۔ اسی لیے امریکا دوسری بار بھی پاکستان سے اڈوں کی فرمائش کر رہا تھا جس نے پاکستان میں ایک سیاسی تنازعے کو گہرا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
جنرل پرویز مشرف کے سب سے پہلے پاکستان کے نعرے کی قالین اُٹھائی تو اس کے نیچے مسائل کا ایک جنگل اُگا ہوا تھا۔ معیشت مصنوعی سہارے پر کھڑی تھی اور اندرونی طور پر ملک بدترین سیکورٹی خطرات کی دلدل میں دھنس رہا تھا۔ خوفناک دہشت گردی ریاست کی رگوں کا خون نچوڑ رہی تھی۔ بالکل اسی طرح باجوہ ڈاکٹرائن کے تحت ہی پاکستان نے بھارت سے کھلی تجارت کی طرف پیش قدمی کی کوشش کی مگر اس عمل میں کامیابی نہ ہوئی۔ جنرل قمرجاوید باجوہ کی رخصتی کے وقت پاکستان کی اقتصادی حالت انتہائی مخدوش اور خستہ ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر بھی ہاتھ سے گیا اور جس اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے نام پر خاموشی کا کڑوا گھونٹ پیا تھا وہ بدسے بدتر ہو رکر رہ گئی یوں باجوہ ڈاکٹرائن پاکستان کی اقتصادی حالت میں کسی سدھار کا باعث نہیں بن سکا۔
سات ماہ قبل جب پاکستان میں ایک سیاسی بحران میں تیزی آئی تھی تو بھارت کے ایک معروف صحافی پروین سوامی نے ’’دی پرنٹ‘‘ میں ایک مضمون میں انکشاف کیا تھا کہ پلوامہ واقعے کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے جہادیوں کو لگام ڈالی تھی اور اس کے بعد ان کا بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول سے بیک چینل رابطہ قائم ہوا تھا جس میں یہ طے ہوا کہ تھا کہ دونوں ملکوں کی کشیدگی کو اس حد سے بڑھنے نہیں دینا کہ نوبت جنگ تک آجائے۔ پلوامہ کا واقعہ اور کشمیر میں پانچ اگست 2019 کا بھارتی فیصلہ باہمی طور پر جڑے ہوئے تھے کیونکہ پلوامہ حملے کے دوسرے ہی روز بھارتی فوج کی طرف سے فوجیوں کا مورال بلند کرنے کے لیے جو نغمہ ریلیزکیا اس میں ’’توڑ دو دھارا ستر کو‘‘ کا مصرع یہ بتارہا تھا کہ بھارت اس واقعے کو کشمیر کی شناخت پر حملے کے بہانے کے طور استعمال کرنا چاہتا ہے۔ بعد میں یہی ہوا۔ بھارت کی آتش ِ انتقام بالاکوٹ میں ایک کوا اور چند درخت تباہ کر کے سرد نہیں ہوئی اور انہوں نے اصل مقصد کی طرف پیش قدمی جاری رکھی جو پانچ اگست تھا۔ بھارت کے اس فیصلے کے جواب میں پاکستان کا ردعمل حد درجہ مایوس کن اور بے عملی پر مبنی تھا۔ خود بھارت کو پاکستان سے اس قدر ٹھنڈے ٹھار رویے کی توقع نہیں تھی۔ عمران خان پر جو داخلی چارج شیٹ نجی محفلوں میں سامنے آتی تھی اس میں بھارت کے حوالے سے ان کی سخت گیر پالیسی اور تجارت کو روکنے اور تعلقات کو یکسر منقطع کرنے کا نکتہ بھی شامل تھا۔
رواں برس فروری میں ایک معروف صحافی روف کلاسرا نے اپنے وی لاگ میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملک کے تیس کے قریب اینکرز کے ساتھ ہونے والی ساتھ گھنٹے کی گفتگو کا احوال سناتے ہوئے کہا تھا کہ جنرل باجوہ کا کہنا تھا میں نے پوری محنت کی ہے کہ ہم ماضی سے پیچھا چھڑائیں گے اور میرے بعد امن عمل کو آگے لے جایا جائے گا۔ میرے بیوی بچے کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ پیس ڈیل کریں گے تو آپ پر کشمیر کا سودا کرنے کا الزام لگے گا یہاں تو نسلوں تک ان باتوں کو رکھنا چاہیے آپ کو یہ کام کرتے ہوئے سوچنا چاہیے۔ لیکن اپنی فیملی کی اس سوچ کے باوجود میں سمجھتا ہوں ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔ اب بھارتی بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ جنرل باجوہ بھارت سے کھلی تجارت کے حامی تھے۔ جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے بعد بھارتیوں کو اب سب سے زیادہ پریشانی یہ لاحق ہے کہ باجوہ ڈاکٹرائن کا کیا ہوگا؟۔ وہ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ پلوامہ کا واقعہ اس وقت رونما ہوا تھا جب جنرل عاصم منیر آئی ایس آئی کے سر براہ تھے۔ بھارت کے اندر کا خوف ان کی چیخ وپکار سے عیاں ہے۔ بہرحال جنرل مشرف کی کمزور پالیسی کی طرح باجوہ کا ڈاکٹرائن اب کئی حوالوں سے زیر بحث آتا رہے گا اور ان میں پانچ اگست کے کمزور ردعمل کا منفی حوالہ سرفہرست ہوگا۔