فلسطین کا مغربی کنارہ

743

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ زندگی میں ’’کنارے‘‘ بہت اہم ہوتے ہیں، یہ کنارے کسی دریا یا سمندر کے ہوں یا کسی چشمہ یا ندی کے… جہاں بھی ہوتے ہیں ان کے کنارے زندگی ہوتی ہے۔ آبادی ہوتی ہے، انسانوں کی بھی ہر طرح کے جانوروں کی بھی۔ سب سے اہم کنارے سمندر کے ہوتے ہیں۔ افتخار عارف کہتے ہیں
سمندر کے کنارے ایک بستی رو رہی ہے
میں اتنی دور ہوں اور مجھ کو وحشت ہورہی ہے
شاید انہوں نے یہ شعر فلسطین کے مغربی کنارے کے بارے میں کہا ہوگا جہاں اسرائیلی فوجی جب جہاں چاہے فائرنگ کرکے فلسطینی بچوں، بوڑھوں، نوجوانوں، خواتین جس کو چاہیں قتل کرسکتے ہیں۔ ان سے اس کے لیے کوئی پوچھ گچھ ہے نہ سزا… اس ماہ کے شروع میں چودہ سالہ لڑکے سے لے کر اٹھارہ سالہ نوجوان کو گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔ کچھ واقعات میں اس برس کے مرد اور نوجوان لڑکیاں حاملہ خواتین بھی براہ راست گولی مار کر شہید کی گئیں، یہ سال فلسطینیوں کے لیے بہت زیادہ جان لیوا ثابت ہوا ہے۔ سیدھی گولی لگ کر شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد کم از کم سو بتائی جارہی ہے۔ زخمی اور بعد میں شہید اور معذور ہونے والے افراد کی تعداد الگ ہے۔ اسرائیل کی ڈیفنس فورسز کا کہنا ہے کہ اب دیگر تمام آپشنز ختم ہوگئے ہیں، اس لیے لائیو فائر کا استعمال کیا ہے۔ یہ اعتراف بذات خود جرم کا اعتراف ہے۔ اس سال ہونے والی فلسطینی شہادتیں اسرائیلی فورس کی تلاشی، گرفتاری اور گھروں کو مسمار کرنے کے دوران ہوئیں، جنہیں اس کے دوران گولی مار کر شہید کیا گیا۔ فلسطینی جن ہتھیاروں سے لیس ہیں ان میں غلیل، پتھر یا زیادہ سے زیادہ دیسی ساخت کا کوئی دھماکا خیز مواد ہوتا ہے۔ انیس سالہ ابراہیم النبلیسی جنہیں نابلوس کا شیر کہتے تھے انہیں ان کی ٹک ٹاک ویڈیوز کے باعث نشانہ بنایا گیا کہ ان کی ویڈیوز وائرل ہو جاتی تھیں۔ خود اسرائیلی اخبار یہاں ہونے والی اسرائیلی فوج کی فلسطینیوں کے خلاف کارروائیوں کو ایک ’’ناہموار جنگ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ کیوں کہ ایک طرف غلیل بردار فلسطینی ہیں اور دوسری طرف اسرائیلیوں کی زبردست فوجی برتری۔ ظلم یہ ہے کہ یہاں غیر قانونی اسرائیلی بستیاں بسائی گئیں اور اس کے آبادکاروں کو بھی ہر طرح کا اسلحہ رکھنے اور استعمال کرنے کی پوری آزادی دی گئی ہے۔ اسی سال اپریل میں ایک سینتالیس سالہ بیوہ کو اسرائیلی فوجی نے قریب سے گولی مار کر شہید کیا، جب کہ وہ غیر مسلح بھی تھیں اور بصارت سے محروم بھی۔
اسرائیلی ڈیفنس فورس نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اُس نے رکنے کے احکامات کو نظر انداز کیا۔ یہ وضاحت بھی بذات خود مجرمانہ ہے۔ فلسطین کی انسانی حقوق کی تنظیم مغربی کنارے پر اسرائیلی فورسز اور آبادکاروں کی ان کارروائیوں کو پورے خطے میں اجتماعی سزا کے مسلط کردینے کے مترادف قرار دیتی ہے۔ یہ مغربی کنارہ دریائے اردن کے کنارے ہے، اس پر اسرائیلی قبضہ 1967ء کی چھے روزہ جنگ کے دوران ہوا۔ اسرائیل نے اس دوران مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا جو آج بھی جاری ہے۔ اسرائیل اس مغربی کنارے کو اپنے دائرہ کار میں رکھنے کی متعدد وجوہات کا حوالہ دیتا ہے۔ اس میں سے ایک معاہدہ بالفور کا اعلامیہ ہے۔ یہ اعلان بالفور برطانیہ کی حکومت اور صہیونی یہودیوں سے ایک خفیہ معاہدہ تھا جس کا تعلق پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے تھا۔ اس اعلان کے تحت اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تھا۔ یہودیوں نے فلسطین سے فلسطینیوں کو نکال کر وہاں یہودی ریاست کا قیام کا معاہدہ برطانوی حکومت سے کیا تھا۔ اس کے تحت رفتہ رفتہ اسرائیل فلسطین پر قبضے کے منصوبے پر عمل کرتا رہا ہے۔ زیادہ تر فلسطینی جو اپنے ہی ملک میں پناہ گزین بن چکے ہیں غزہ کی پٹی اور غرب اردن میں رہتے ہیں۔ اسرائیل فلسطینیوں کو ان کے اپنے گھروں میں جانے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ آئے دن اُن کے گھروں کو مسمار کرکے قبضہ کررہا ہے اور اپنی غیر قانونی آبادیاں بڑھاتا جارہا ہے۔ امریکا اسرائیل کے ہر دعویٰ کو قبول کرتا ہے یا خاموشی سے ساتھ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
آج کل اسرائیل کے وزیراعظم دریائے اردن کے مغربی کنارے کے مکمل الحاق کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں اور اس کے لیے وہ امریکا سے بات چیت کررہے ہیں۔ یہ کوئی چار لاکھ ایکڑ اراضی ہے جو فلسطینیوں کی ہے، اسرائیل اسی طرح فلسطین کو ہڑپ کرتا رہا ہے اور اب مغربی کنارے پر قابض ہونے کے منصوبے پر عل پیرا ہے۔ اسرائیل کو اگر خوف ہے تو صرف حماس کا ہے، اسرائیل کی کابینہ کے وزیر اجلاس میں وزیراعظم نیتن یاہو پر نکتہ چینی کرتے ہیں کہ حماس سے قبل ازوقت جنگ بندی کیوں کی؟ یاد رہے کہ اکیاون روز تک جاری حماس کے ساتھ جنگ میں اسرائیل کو ڈھائی ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہ خود اسرائیل کی حکومت بتاتی ہے۔ یہ ہے فرق اُس جذبہ جہاد کا جو حماس کے رہنما شیخ یاسین نے حماس کے ذریعے فلسطینیوں میں پیدا کیا۔ 1967ء میں اسرائیل نے عربوں کی متحدہ فوج کو شکست دے کر فلسطین کے مغربی کنارے بلکہ تقریباً پورے فلسطین غزہ کو چھوڑ کر قبضہ کرلیا تھا۔ وہ بھی محض چھے دن کی جنگ کے بعد۔ یہ حماس ہے جو معمولی ہتھیاروں کے ساتھ اکیاون دن تک اسرائیل کے آگے سینہ سپر رہی اور بالآخر اس کو جنگ بندی کرنی پڑی۔ ٹھیک ہی کہا گیا ہے جنگیں جذبے کے زور پر جیتی جاتی ہیں۔ ہتھیار سنبھالنے والے کندھے اور بازو زیادہ اہم ہوتے ہیں۔