قومی وسائل کا ضیاع بھی تو کرپشن ہے

1395

پاکستان تحریک انصاف نے صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی منظوری دے دی اب ن لیگ اور پیپلزپارٹی اسمبلیاں بچانے کی جدوجہد کریں گے۔ الیکشن کمیشن بھی مدد کو دوڑا آیا کہ ہم 60 روز میں ضمنی انتخاب کرا دیں گے۔ اسمبلیاں کیسے تحلیل ہوتی ہیں اور کب ہونی چاہیں ان کا ایک طریقہ کار موجود ہے لیکن نہ تو اسمبلی توڑنے کے معاملے میں اس طریقہ کار پر عمل کیا جارہا ہے اور نہ استعفوں کے بارے میں۔ ان سب باتوں سے قطع نظر یہ سوال اب زیادہ سنجیدگی سے پی ٹی آئی الیکشن کمیشن اور موجودہ حکمران ٹولے سے کیا جانا چاہیے کہ آپ سب مل کر قومی وسائل کیوں اڑانا چاہتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں خصوصاً تحریک انصاف سے تو یہ سوال سب ہی کو کرنا چاہیے کہ وہ سیاست کر رہی ہے یا سڑکوں پر فیصلے کرانا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو وہ سڑکوں پر تھے 126 دن کا دھرنا الگ دیا۔ بمشکل اسمبلیوں میں پہنچے اور اگلے الیکشن کی تیاری کرنے لگے اور 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں حکومت بنائی لیکن پونے چار سال میں حکومت سے بے دخل کر دیا گیا حکومت سے نکلتے ہی اسمبلی کرپشن کا گڑھ قرار دے دی اس کے بعد سے وہ اسمبلیاں تحلیل کرنے اور نئے الیکشن کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس مطالبے کے باوجود ان ہی کرپٹ اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں عمران خان صاحب نے سات نشستوں سے بیک وقت انتخاب لڑ لیا اور کامیاب ہونے کے باوجود اسمبلیوں میں نہیں گئے۔ جن حلقوں میں وہ کامیاب ہوئے ان کی نمائندگی کے لیے مزید ضمنی انتخاب کی ضرورت پڑے گی۔ اگر عمران خان کا نئے انتخابات کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا جاتا تو انہیں جیتی ہوئی 6 نشستوں میںسے پانچ چھوڑنی پڑیں گی۔ گویا ان نشستوں پر پھر ضمنی انتخابات ہوں گے۔ اب نیا شوشا چھوڑا گیا ہے کہ چھڑی بدل گئی ہے اس لیے الیکشن کی گھڑی بھی بدل جائے گی۔ یہ بات معروف سیاسی لیڈر شیخ رشید نے کہی ہے گویا وہ پاک فوج کے نئے سربراہ کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں۔ بشرطیکہ فوج سیاست سے الگ ہو چکی ہو۔ عمران خان اور ان کی پارٹی کا خیال ہے کہ جمہوریت وہی ہے جس میں ان کی پارٹی اقتدار میں ہو اس لیے وہ مسلسل سات ماہ سے نئے الیکشن کی بات کر رہے ہیں۔ انتخابات میں دو ماہ بھی رہ گئے ہوں تو ضمنی الیکشن کرائے جاتے ہیں اور ایک دن کے لیے وہ شخصیت رکن قومی اسمبلی قرار پاتی ہے جو ضمنی الیکشن جیت کر آئے۔ اس معاملے میں قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ ایک ہی مقبول لیڈر ایک سے زاید کتنے حلقوں سے الیکشن لڑ سکتا ہے اس کا قانون ضرور ہونا چاہیے ورنہ قومی وسائل ضائع ہوں گے۔ اور سیاسی رہنما قصداً یہ قومی وسائل ضائع کرتے ہیں۔ اگر یہ روش رہی تو پھر یہی رواج پڑ جائے گا کہ جس کے جلسے میں لاکھوں لوگ آجائیں اس کی حکومت بنا دی جائے۔ الیکشن کمیشن بنانے کی ضرورت ہے نہ الیکشن کرانے کی۔اس میں وسائل کی بچت ہو گی پھر امپائر کی انگلی اٹھے گی اور حکومت آئوٹ دوسری بار امپائر اشارہ کرے گاتو لاکھ دو لاکھ جلسے والے حکومت میں آجائیں گے۔ موجودہ سیاسی بحران پیدا کرنے والے تینوں کھلاڑی پی پی پی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن بڑے زور و شور سے الیکشن لڑتے ہیں انتخابی مہم میں الیکشن کمیشن کے ضابطوں کی سرعام دھجیاں اڑاتے ہیں الیکشن کمیشن نام نہاد خودمختاری کی تہمت کے ساتھ تماشا دیکھتا ہے کہ امپائر کی انگلی کس کے حق میں اٹھنے والی ہے اسی مناسبت سے ایکشن لیتا ہے اب اگر پی ٹی آئی حکومت میں نہیں ہے تو وہ مسلسل اسمبلیاں تحلیل کرنے پر زور دے رہی ہے اگر اس کی کوششیں کامیاب ہو گئیں تو الیکشن ہوں گے اور اگر پی ٹی آئی والے سنجیدہ ہو جائیں اور استعفیٰ دے دیں تو الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ 60 روز میں ضمنی الیکشن کرا دیں گے۔ یعنی اتوار یا پیر تک اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں تو جنوری کے اواخر تک ضمنی انتخاب ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن بھی خوب جانتا ہے کہ ایک حلقے کے ضمنی انتخاب پر کتنا سرکاری اور آن ریکارڈ خرچ ہوتا ہے اور کتنا انتخابی مہم پر اور پھر لوٹے خریدنے یا آزاد امیدوار جیت جائے تو اس کو کسی پارٹی کا ساتھ دینے پر مجبور کرنے پر بھی مال خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اگر اسمبلیاں نہیں ٹوٹیں اور صرف استعفیٰ آئے تو سیاسی بحران پیدا ہو گا اور اربوں روپے خرچ کر کے ضمنی انتخاب کرایا جائے گا۔ یہ سارے اخراجات بھی تو وسائل کا ضیاع ہیں اس طرح قومی وسائل ضائع کرنا بھی تو کرپشن ہے۔ اسمبلیوں میں بیٹھے لوگ مسلسل اقتدار بچانے اور اقتدار میں آنے کی جنگ میں مصروف ہیں عوام نے اس مقصد کے لیے تو ووٹ نہیں دیے تھے۔