کیا ٹویٹر مرحوم ہونے والا ہے؟

577

ٹویٹر کے نئے مالک ایلون مسک نے ایک قبر کے کتبے کی تصویر ٹویٹ کی، اس کتبے پر ٹویٹر کی چڑیا بنی ہے۔ مسک نے یہ ٹویٹ بقول اُن کے مذاق میں کی اور مزید توجہ حاصل کررہے ہیں۔ حالاں کہ اس کے ساتھ ہی ٹویٹر پر ’’آر آئی پی ٹویٹر‘‘ یعنی ’’ریسٹ ان پیس ٹویٹر‘‘ اور گڈبائے ٹویٹر کے ٹرینڈز جاری ہیں۔ صارفین اس سائٹ کے بند ہونے کے بارے میں فکر مند ہیں۔ بہت سے صارف پوچھ رہے ہیں کہ کیا واقعی ٹویٹر بند ہونے جارہا ہے؟ اور کیا ایلون مسک نے چوالیس ارب ڈالر میں ٹویٹر اس لیے خریدا تھا کہ بند کردے؟؟ ٹویٹر کے ساتھ ساتھ فیس بک کے بارے میں بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ دنیا کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں حالات پہلے کی طرح نہیں ہیں۔ مثلاً ایپل، نیٹ فلیکس، ایمازون، مائیکرو سافٹ میٹا (فیس بک کی مالک کمپنی) اور الفابیٹ (یعنی گوگل) جیسے بڑے ناموں کو پچھلے بارہ ماہ میں تین ٹریلین سے زیادہ نقصان جھیلنا پڑا۔ یہ نقصان امریکن اسٹاک مارکیٹ میں ہوا۔ لہٰذا ان کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو فارغ کرنا شروع کیا۔ میٹا نے گیارہ ہزار افراد فارغ کیے، جب کہ ٹویٹر نے سینتیس ہزار افراد نکالے جو کہ پورے عملے کا آدھا تھے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بنیادی طور پر اشتہارات کے لیے قائم کاروبار بن گئے ہیں۔ ٹویٹر اپنی آمدنی کا نوے فی صد اشتہارات سے حاصل کرتا ہے۔ کمپنیوں سے ورکرز کو نکالے جانے کے باعث ملازمین اپنی جھنجھلاہٹ اور طیش کے اظہار کے لیے سوشل میڈیا ہی کا سہارا لے رہے ہیں۔ حالیہ معاشی بحران نے ٹیکنالوجی یعنی سوشل میڈیا کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ سوشل میڈیا پر اشتہارات دینے میں کمی آئی ہے۔ ایلون مسک کے ٹیویٹر خریدنے سے پہلے ہی اس بات پر معاملات سامنے آچکے تھے، دستاویزات کے مطابق عالمی وبا کے بعد سے ان لوگوں کی سرگرمیوں میں کمی آئی ہے جو زیادہ ٹویٹ کرتے تھے۔ زیادہ ٹویٹ کرنے والے لوگ وہ شمار ہوتے ہیں جو ہفتے میں چھے سات بار لاگ ان کرتے ہیں اور ہفتے میں تین سے چار بار ٹویٹ کرتے ہیں۔ ٹویٹر پر ریسرچ کرنے والے ایک ریسرچر کے کا کہنا ہے کہ ٹویٹر کو زیادہ استعمال کرنے والے صارفین مجموعی صارفین کا دس فی صد سے کم ہوتے ہیں مگر نوے فی صد ہونے والی ٹویٹس کے ذمے دار ہوتے ہیں اور پلیٹ فارم کی عالمی آمدنی میں ان کا نصف حصہ ہوتا ہے۔ ایلون مسک کے آنے کے بعد سے ٹویٹر نے ایک تحقیق کے مطابق دس لاکھ صارفین کھودیے ہیں۔ بس یہ کہنا آسان بات ہے کہ جیسے دیگر چیزوں کا جو انسان استعمال کرتے ہیں۔ ایک عمر ہوتی ہے اسی طرح سوشل میڈیا کی کمپنیوں کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کی کمپنیوں کا بھی ایک قبرستان ہوتا ہے۔ جیسے مائی اسپیس اورکٹ اور وائن وغیرہ اسی طرح کے بہت سے نیٹ ورک آئے اور غائب ہوگئے۔ ان کی زندگی دراصل صارفین سے ہوتی ہے، صارفین اگر کسی اور طرف کا رُخ کرلیتے ہیں تو یہ ایک دھچکا ہوتا ہے۔ کوئی بھی سوشل پلیٹ فارم اتنا ہی کامیاب ہوتا ہے جتنے کہ ان پر موجود صارفین ہوتے ہیں۔ لہٰذا صارفین کو اپنی طاقت اور اہمیت کا علم ہونا چاہیے۔ صارفین اور آمدنی کی تلاش جاری ہے اس کے لیے مزید کمپنیاں وجود میں آئیں گی اور ان کے درمیان مقابلہ رہے گا۔ تحقیق کار بتا رہے ہیں کہ آج کے نوجوانوں کے لیے سب سے زیادہ کشش والا کیریئر سوشل میڈیا پر انفلوئنز بننا ہے۔ یہ اتنا عوامی ہوگیا ہے کہ ہر سطح کے لوگوں کے لیے دل پسند قرار پایا ہے۔ ہماری نوکرانی کچھ پریشان تھی وجہ پوچھی تو بتانے لگی کہ ’’آج کل اس کے میاں کو گھر بیٹھ کر موبائل پر کمانے کا ہوکا ہوگیا ہے اور وہ باہر جا کر محنت کرنے کے بجائے موبائل لے کر پلنگ توڑتا رہتا ہے‘‘۔ ہوسکتا ہے کہ بہت جلد ہمارے ہاں برطانیہ جیسی صورت حال ہوجائے۔ برطانیہ میں حالیہ ہونے والے سروے کے مطابق تیرہ لاکھ نوجوان سوشل میڈیا پر مختلف نوعیت کا مواد تیار کرکے آمدنی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جب کہ اٹھارہ سے چھبیس سال کے تقریباً تین لاکھ نوجوان کا پہلے ہی آمدن کا واحد ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا جس کی زندگی اور طرز زندگی بہت دلکش دکھائی جاتی ہے لیکن کیا سوشل میدیا کے انفلوئنرز کا کیریئر قابل تقلید ہے ہی چمک دمک کے پیچھے بہت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر صارفین کے لیے جنگ جاری رہے گی۔ ٹویٹر کے ایلون نے میٹا کے واٹس ایپ کو ٹکر دینے کے لیے کچھ کرنے کا سوچا ہے۔ اور اسی درمیان یہ خبر سامنے آگئی کہ ہیکرز نے واٹس ایپ کے پچاس کروڑ صارفین کے فون نمبر فروخت کے لیے پیش کردیے ہیں۔ یہ واٹس ایپ کے کل صارفین کا ایک چوتھائی ہے۔ یعنی واٹس ایپ کے کل صارفین کی تعداد دو ارب سے زیادہ ہے۔ ہیکرز پر کسی طرح کا بین الاقوامی قانون کا شکنجہ کسا جاسکتا ہے؟ اس کا علم کچھ عرصے بعد ہوگا۔ جب کسی کے مفادات پر ضرب پڑے گی۔ لیکن بہرحال یہ انسانی حقوق پر تو کاری ضرب ہے۔