سود کے خاتمے میں لیت و لعل

1228

وزیر خزانہ و ریونیو اسحق ڈار نے کہا ہے کہ وفاقی شریعت عدالت کے حکم کی روشنی میں سودی نظام کے خاتمے اور اسلامی بینکنگ کے نظام کے لیے وزیراعظم سے جلد مشاورت کرکے اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنائی جائے گی۔ انہوں نے خبر دی ہے کہ اس حوالے سے ایس ای سی پی، ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کے حکام کے ساتھ مشاورت ہورہی ہے، آئندہ ہفتے یہ کمیٹی تشکیل دے دی جائے گی اور حکومت اس کمیٹی کو مکمل مدد فراہم کرے گی۔ وزیر خزانہ نے ملکی معیشت کے بارے میں اس کی مضبوطی اور استحکام کے حوالے سے اچھے سبز باغ دکھانے کی کوشش بھی کی ہے لیکن ان کا انداز وہی تھا جو سابق پی ٹی آئی حکومت کے وزراء کا تھا۔ اسحق ڈار صاحب نے بھی پوری نقل کرتے ہوئے وہی کام کیا۔ میڈیا کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے ملک کی موجودہ تباہ حال معیشت کی تمام تر ذمہ داری پی ٹی آئی پر ڈال دی۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان دس ہزار ارب روپے قرضہ کم کرنے آئے تھے لیکن پونے چار سال میں قرضے کو 25 ہزار ارب سے بڑھاکر 44 ہزار پانچ سو ارب روپے تک لے گئے اسی طرح انہوں نے ایک ایک کرکے تمام خرابیوں کا ذمے دار پی ٹی آئی کو قرار دیا۔ حالانکہ پونے چار سال پہلے پی ٹی آئی کی نہیں اسحق ڈار کی صاحب ہی کی حکومت تھی وہ اس طرح ظاہر کررہے تھے گویا مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے ہیں۔ حقیقی معنوں میں تو مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ایک ہی نظام کا تسلسل ہیں۔ پیپلز پارٹی اقتدار میں تھی تو وہ مسلم لیگ کے بارے میں یہی کچھ کہا کرتی تھی اور جب مسلم لیگ اقتدار میں ہوتی تو پیپلز پارٹی والے اقتدار میں آنے کے لیے یہی باتیں کررہے ہوتے تھے۔ اب ان دونوں نے مل کر پی ٹی آئی کو برداشت تو کیا لیکن اسے اقتدار سے نکلواہی دیا اب دونوں پی ٹی آئی کو تمام خرابیوں کا ذمے دار قرار دے رہی ہیں۔ ان سب کو اپنی اس خرابی کا اچھی طرح علم ہے کہ ملک کو معاشی تباہی کے دہانے پر ان سب نے تسلسل کے ساتھ پہنچایا ہے۔ یہ سب حکمران ایک تسلسل کا نام ہیں یہ تو الزام تراشیاں ہیں لیکن اسحق ڈار صاحب نے ایک حیرت انگیز بات بتائی کہ ان کی پارٹی کے قائد میاں نواز شریف نے وزیراعظم کو اور وزیراعظم نے مجھے ہدایت دی ہے کہ سودی نظام کے خاتمے اور اسلامی بنکاری کے لیے کام کروں اور میں نے ان کی ہدایات کی روشنی میں اسٹیٹ بینک اور دیگر حکام سے بات کی ہے۔ کیا یہ ہدایت نامہ حقیقی ہے؟ کیونکہ میاں نواز شریف تو سودی نظام کو اپنے کلیجے سے لگاکر رکھتے تھے۔ عدالت عظمیٰ اور شریعت عدالت میں نظام ختم کرنے کے فیصلوں کے بعد وہ اپیل میں گئے اور دوسری مرتبہ بھی مسلم لیگ ہی کے دور میں بینکوں نے سودی نظام کے خاتمے کے لیے اپیلیں کی تھیں اب اسحق ڈار صاحب حکومتی اپیلیں واپس لینے کا اعلان کرچکے لیکن یہ بات بجائے خود مشتبہ ہے کہ سود کے دلدادہ اچانک سود کا نظام ختم کرنے پر کیوں کمربستہ ہوگئے۔ یہ تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کرکے اقتدار میں آنے والی پی ڈی ایم اب میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے کوشاں ہے۔ اسی لیے میاں صاحب کا تاثر اچھا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب سود کے معاملے میں حکمرانوں کی لیت و لعل کا اندازہ کریں انہیں کوئی چھوٹا سا فیصلہ کرنا ہے یا بڑا چند روز میں کر گزرتے ہیں لیکن اپنی جان سے زیادہ عزیز سودی نظام کے خاتمے اور اسلامی بینکنگ کے لیے کمیٹی اور پھر اس کی سفارشات اور پھر ان سفارشات پر مبنی مسودہ قانون تیار کیا جائے گا۔ جب تک پی ڈی ایم حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا نئی حکومت سازی ہوگی۔ کون جانے کس کے سر پر اقتدار کا ہما آن بیٹھے۔ اس بات کے بھی بہت کم امکان ہیں کہ اعلانات کے مطابق ادارے سیاست سے بے دخل ہوجائیں گے اور سیاست سیاسی لوگوں کے لیے چھوڑ دی جائے گی۔ لہٰذا پاکستان کی سیاست اور کرکٹ ٹیم کی طرح آخری لمحات میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ عمران خان دوبارہ بھی آسکتے ہیں اور میاں نواز شریف بھی اور یہ سب باہر ہوکر مریم نواز اور بلاول کا مقابلہ کرایا جائے اور تازہ دم کھلاڑی میدان میں اتارے جائیں اس آخری صورت میں نواز شریف اور زرداری مطمئن ہوسکتے ہیں۔ اس طرح عمران خان اپوزیشن لیڈر کے طور پر رہ سکیں گے۔ اسحق ڈار صاحب پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے بارے میں بلوم برگ کی رپورٹ کا حوالہ دے رہے ہیں کہ صرف دس فیصد اس کے خدشات ہیں جبکہ اسی بلوم برگ نے جب سابق حکومت کے دور میں معاشی ترقی کی رفتار اچھی بتائی تھی تو پی ڈی ایم والے بلوم برگ کی سند تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی سے یہ امید لگانا کہ وہ سودی نظام ختم کردیں گے کیکر کے درخت سے امرود یا سیب کی فصل کی امید لگانے جیسی حماقت ہے۔ ان میں اس کام کی صلاحیت ہے نہ اس کا علم۔ سود چھوڑنا اگر آسان ہوتا تو کفار قریش ایک لمحے میں چھوڑدیتے طرح طرح کی تاویلات نہ کرتے یہی کام آج کے حکمران کررہے ہیں۔ حکومت کی ترجیحات کا اندازہ اس سے بھی ہوسکتا ہے کہ ایک جانب سود کے حق میں اپیل واپس لے رہے ہیں اور ساتھ ہی شرح سود 16 فیصد تک پہنچارہے ہیں۔ پی ڈی ایم کی صفوں میں بھی سودی نظام کے بارے میں یقین کی حد تک یہی خیال ہے کہ اس کے بغیر گزارا نہیں۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما ہیں وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے ڈیفالٹ کا خطرہ ہے اور انہوں نے بیرونی قرضوں کے دسمبر کے بانڈز کی ادائیگی کے باوجود ڈیفالٹ کا خطرہ برقرار رہنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ سودی نظام جاری رکھنے کی دلیل یہ ہے کہ مفتاح اسماعیل اس بات پر اصرار کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل نہ کرنے سے خطرات بڑھ جائیں گے۔ مفتاح اسماعیل نے قرض دہندگان کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی بات کی ہے۔ یہ ٹھوس اقدامات کیا ہوسکتے ہیں۔ یقیناً مزید قرضے مزید سود اور ڈیفالٹ کے خطرے میں کمی۔ ان حکمرانوں میں جن میں تینوں پارٹیاں شامل ہیں ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی براہ راست رکاوٹ ڈالنے والوں کی اکثریت ہے۔ اور اسلامی نظام نافذ کرنے کی خواہش بھی نہیں ہے لہٰذا ان کے معاشی ترقی کے اعلانات سمیت تمام اعلانات عملدرآمد ہونے تک مشتبہ رہیں گے۔