اردو زبان کا مسئلہ

682

پاکستان میں سرکاری سطح پر اردو کے ساتھ وہی سلوک ہوا ہے جو غالب کے زمانے میں نواب طوائف کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ طوائف کو نواب کی ذاتی زندگی میں تو دخل ہوتا تھا مگر اس کی اجتماعی گھریلو زندگی سے طوائف کا کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا گھر میں اس کی قانونی بیوی ہی کا حکم چلتا تھا۔ اردو کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے اسے انفرادی سطح پر تو پزیرائی حاصل ہے مگر اجتماعی سرکاری زندگی میں اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں بلکہ اردو کا حال تو طوائف سے بھی برا ہے۔ اردو کو قانونی حیثیت حاصل ہے مگر اس کی جگہ سرکاری سطح پر انگریزی براجمان ہے۔ سرکاری سطح پر انگریزی کا معاملہ محبت کی شادی والا ہے جبکہ اردو سوکن کے طور پر لی جارہی ہے۔ ایسی سوکن کے طور پر جسے اجتماعی خاندانی نظام نے سرکاری نظام پر اس کی مرضی کے بغیر ٹھونس دیا ہو۔
اس اقتباس میں ممکن ہے بعض لوگوں کو انگریزی کے خلاف بغض بھرا نظر آئے لیکن ایسا نہیں ہے۔ زبانوں اور رنگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیاں کہا ہے اس لیے کسی زبان سے نفرت کرنا یا تعصب برتنا اللہ کی نشانیوں کے ساتھ نفرت کرنا اور تعصب برتنا ہے البتہ یہ بات طے ہے کہ ہم انگریزی کو استعماری قوتوں کی ایک ایسی یادگار سمجھتے ہیں جس کو ہمارے طبقہ امرا نے ایک قوم کی عظیم اکثریت کے استحصال کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ زبان کا یہ استعمال خود اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک کے مترادف ہے۔ چناں چہ انگریزی کے خلاف عوامی سطح پر جو جذبات پائے جاتے ہیں ان کا ادبار اسی طبقہ امرا کو اٹھانا ہوگا۔
اس استحصالی طبقہ کی جانب سے اردو پر آزادی سے لے کر اب تک جو اعتراضات وارد ہوئے ہیں ان کا مسلسل بڑا مثبت جواب دیا جاتا رہا ہے تاہم اس جواب کو اس طبقہ نے کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا۔
ہمارے یہاں انگریزی کو برقرار رکھنے کے سلسلے میں جو جواز دیے جاتے ہیں ان میں سب سے اہم جواز یہ ہے یعنی:
-1 انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے۔
اس کے معنی یہ لیے جاتے ہیں کہ اگر آپ کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرنا ہے تو پھر انگریزی کو اس کا موجودہ مرتبہ دیے بغیر چارہ نہیں۔
اس کے جواب میں اردو داں طبقہ کی جانب سے جو عوام کی عظیم اکثریت کا نمائندہ ہے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ اردو میں بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان بننے کے تمام تر امکانات موجود ہیں اور یہ کہ ماضی قریب میں اردو سائنس اور طب وغیرہ کی زبان رہ چکی ہے۔ اس جواب کے دوسرے حصہ میں یہ بات بھی بیان کی جاتی ہے کہ دنیا کی ہر قوم نے اپنی زبان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم پیدا کرکے ترقی کی ہے۔ اس سلسلے میں روس، جاپان اور چین وغیرہ کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
خیر چلیے ہم یہی سائنس اور ٹیکنالوجی سیکھیں گے اور اس کے تمام کافرانہ رجحانات کے ساتھ سیکھیں گے۔ سوال یہ ہے کہ علم کی بنیاد پر کس پر ہے؟ خیال پر! خیال کا تعلق کس چیز سے ہے؟ سوچنے کے عمل سے، سوچنے کے عمل کا تعلق کس چیز سے ہے؟ زبان سے، ہم زبان کی مدد سے سوچتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سوچنے کے خیال کا تعلق جس زبان سے ہوتا ہے وہ کون سی زبان ہوتی ہے؟ زبان کی دو موٹی موٹی اقسام ہیں۔
-1 تخلیقی زبان (یہاں تخلیقی زبان کی اصطلاح میں نے وسیع معنوں میں استعمال کی ہے)
-2 عام بول چال کی زبان۔
سوچنے کے عمل کا تعلق عام بول چال کی زبان سے نہیں ہوتا بلکہ تخلیقی زبان سے ہوتا ہے۔ تخلیقی زبان اظہار کی ایک اعلیٰ ترین سطح کی حامل ہے اور یہ وہ زبان ہوتی ہے جو کسی شخص کے خون میں شامل ہو اور خون میں وہی زبان شامل ہوسکتی ہے جو اس شخص کی تہذیب اور ثقافت سے پھوٹی ہو۔ اب انگریزی ایک ایسی زبان ہے جو ہماری تہذیب و ثقافت میں ایک بیرونی بلکہ استحصالی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسی زبان کس طرح ہماری تخلیقی زبان بن سکتی ہے؟ بلکہ انگریزی کی بات تو چھوڑیے دنیا کی کوئی بھی زبان ہمارے لیے وہ نہیں ہوسکتی جو اردو زبان ہے کیوں کہ یہ وہ زبان ہے جو اس علاقے کی اجتماعی تہذیب و ثقافت کے اجتماعی دور کے عمل سے ظہور میں آئی ہے۔
یہ عام تجزیہ ہے کہ وہ صاحبان بھی جو پہلے درجے سے لے کر اعلیٰ ترین درجے تک انگریزی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ بھی سوچتے اردو ہی میں ہیں ان میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو انگریزی میں سوچنے کی قابل ہوتے ہیں اور ان افراد کے سوچنے کے عمل کا تعلق عام زندگی سے ہوتا ہے۔ اعلیٰ تخلیقی خیالات سے نہیں۔ عام حالات کے بارے میں سوچنا اور اس کا اظہار کرنا اور بات ہے اور تخلیقی سطح پر سوچنا اور اس کا اظہار کرنا دوسری بات ہے۔ زبان پر گرفت کا ایک مظہر یہ ہوتا ہے کہ آپ اس زبان میں تصرف کرسکیں ہم چاہے جتنی اچھی انگریزی جان جائیں مگر اس میں تصرف نہیں کرسکتے۔ یہ ہماری تہذیبی مجبوری ہے۔ اسی طرح کوئی انگریز چاہے جتنی اچھی اردو جان لے مگر وہ اردو میں تصرف کے قابل نہیں ہوسکتا اور اگر یہ صورت پیدا بھی ہوجائے تو یہ ایک استثنیٰ ہوگا اور عام زندگی کے اصول مستثنیات کے لیے نہیں بنائے جاتے۔
انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے۔ یہ فقرہ کچھ اس طرح کہا جاتا ہے جیسے انسانی زندگی سائنس اور ٹیکنالوجی کے سوا کچھ ہے ہی نہیں اور پوری زندگی کا مقصد صرف سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنا ہے۔
یہ بات تو ایک معمولی فہم رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی انسانی زندگی کا وہ حصہ ہے جس کا تعلق خارجی ماحول یا بیرونی دنیا سے ہے، زیادہ صاف الفاظ میں مادی دنیا سے ہے۔ سائنس بنیادی طور پر مادی ماحول کو بہتر بنانے کا ایک آلہ ہے انسان کی باطنی زندگی اور تہذیبی و ثقافتی زندگی سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ انسانی زندگی کا یہی حصہ اہم ترین اور بنیادی ہے اور یہ حصہ انسانی زندگی کا سب سے بڑا حصہ بھی ہے۔
اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ سائنس کا ہماری مذہبی زندگی سے تو اتنا بھی تعلق نہیں جتنا تہذیبی یا ثقافتی زندگی سے ہوسکتا ہے۔ ہماری یہی زندگی (یعنی مذہبی زندگی) ہمارے لیے سب کچھ ہے اس میں تہذیب بھی شامل ہے اور ثقافت بھی۔ مذہبی نقطہ نظر کے مطابق انسانی زندگی کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ کمپیوٹر، روبوٹ اور ایٹم بم بنانا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں جو سائنس پیدا ہوئی وہ اسلام کے مجموعی دائرہ علم کا ایک حصہ تھی بجائے خود ایک علم نہیں اور اس کا مقصد بھی کائنات میں خدا کی نشانیاں تلاش کرنا تھا گو اس کا تعلق عام زندگی کے فائدے سے بھی تھا۔ اسلام کیا دوسری قدیم تہذیبوں میں بھی یہی صورت تھی۔ خود یونان میں سائنس فلسفے کا ایک حصہ تھی اور فلسفہ صداقت کی محبت اور اس کی تلاش کا نام تھا بجائے خود صداقت نہیں جیسا کہ جدید فلسفہ بن چکا ہے۔
اس گفتگو کا مطلب یہ بتانے کے سوا کچھ نہیں کہ زبان کا یہ مسئلہ کہاں کہاں تک جاتا ہے یعنی یہ بحث صرف یہیں تک محدود نہیں رہتی کہ ہمیں اردو اپنانی چاہیے یا انگریزی۔
اس سلسلے کی تیسری بات یہ ہے کہ سائنس کی اپنی ایک علٰیحدہ زبان ہے جو کہ عام تکنیکی زبان ہے خود انگریزی میں بھی سائنس کی زبان عام انگریزی زبان سے مختلف زبان ہے۔ چناں چہ اس موضوع پر انگریزی کی حمایت میں گفتگو کرنے والوں سے یہ ضرور پوچھ لینا چاہیے کہ وہ کون سی انگریزی زبان کی حمایت کرتے ہیں۔ عام انگریزی زبان کی یا اس انگریزی زبان کی جس میں سائنسی علم پایا جاتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اگر ہم ان حضرات سے یہ کہیں کہ چلیے ہم اپنے طلبہ کو سائنسی علوم سائنسی انگریزی میں پڑھائیں گے اور دیگر علوم اردو میں تو یہ اس کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے اور اگر آپ ان سے یہ کہیں کہ اعلیٰ ملازمتوں کے لیے ہونے والے مقابلے کے امتحانات چوں کہ سائنسی علم سے کوئی تعلق نہیں رکھتے اس لیے ہم انہیں انگریزی کے بجائے اردو میں منعقد کرائیں گے تو اس کے لیے یہ ہرگز تیار نہیں ہوں گے کیوں کہ انگریزی کی حمایت سے ان کا مقصد ہی صرف یہ ہے کہ ان کی آل اولاد کی اجارہ داری، بیورو کریسی وغیرہ پر برقرار رہے۔ انگریزی کے سائنسی علوم کی جہت والا معاملہ تو یہ حضرات صرف خلط مبحث کے لیے اٹھاتے ہیں۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اب دنیا میں سائنسی علوم اتنی تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں کہ ہر روز درجنوں کتابیں مارکیٹ میں آجاتی ہیں اس لیے ان کا ترجمہ ناممکن ہے تو میرے خیال میں یہ بھی ایک مغالطہ ہے آپ کا کیا خیال ہے دنیا کے 10 سب سے بڑے سائنسدان بھی انگریزی میں چھپنے والی ہر کتاب پڑھتے ہوں گے؟
جی نہیں بلکہ اعلیٰ ترین سطح پر جا کر آدمی مطالعہ کے ضمن میں انتخابی ہوجاتا ہے وہ صرف وہی چیزیں پڑھتا ہے جو اس کے کام سے براہ راست تعلق رکھتی ہوں اور جو چیزیں اس کے کام سے براہ راست تعلق رکھتی ہیں وہ بہت زیادہ نہیں ہوتیں۔ چناں چہ ان کا ترجمہ کرنا کچھ مشکل نہیں اور یہ بھی کیا ضروری ہے کہ پوری کتاب ترجمہ کی جائے ہم کیوں نہ اس کے مرکزی خیال کا ترجمہ کریں یا صرف اس کی تلخیص کردیں ان حضرات سے یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ جاپان جس نے سائنس کے میدان میں بھی حیرت انگیز ترقی کی ہے اس کے کتنے سائنس دان ایسے ہوں گے جنہوں نے انگریزی میں چھپنے والی کتب سے استفادہ کیا ہوگا؟۔ یہی بات چین کے حوالے سے کہی جا سکتی ہے۔
جہاں تک اردو زبان کی استعداد کا معاملہ ہے تو اردو کے موجودہ علمی ذخیرے کو دیکھ کر معمولی علم رکھنے والا شخص بھی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ اس زبان میں ہر طرح کے مفاہم بیان کرنے کی صلاحیت ہے اور جو صلاحیت اس میں نہیں ہے وہ آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔
سائنسی علم تخلیقی علم نہیں ہوتا بلکہ یہ دریافت اور ایجاد کا علم ہوتا ہے۔ چناں چہ اس کی عام سطح پر ایک معمولی وضاحتی اور بیانیہ زبان کافی ہوتی ہے، تاہم اعلیٰ ترین سطح پر جہاں سائنس نظری علم کی دنیا میں داخل ہوتی ہے وہاں ریاضیاتی فارمولے کام آتے ہیں جن کا عام زبان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تاہم عام سطح کی زبان اتنی معمولی ہوتی ہے کہ اسے سائنس کا طالب علم آسانی کے ساتھ سیکھ سکتا ہے اور اگر اس میں اس زبان کی کافی استعداد موجود نہ ہو تو 4، 6 ماہ کے خصوصی کورس کے ذریعے اس میں یہ استعداد پیدا کی جاسکتی ہے۔
تاہم میری اس گفتگو کا مطلب یہ نہیں کہ انگریزی کو دیس نکالا دیدینا چاہیے۔ ہمیں خدا کی اس نشانی کو بھی جتنا ممکن ہو سیکھنا چاہیے مگر خدا کی نشانی اور علم کی زبان کے طور پر، استحصال کے ذریعہ اور اہلیت کی علامت کے طور پر نہیں۔ انگریزی کیا ہمیں دنیا کی دوسری زبانیں بھی سیکھنی اور بولنی چاہئیں بلکہ سب سے پہلے تو خود اردو سیکھنی چاہیے کیوں کہ ہمیں اردو بھی کون سی بہت اچھی آتی ہے۔