جنرل آیا جنرل گیا، تمہیں کیا؟؟

465

چنوں نے منوں کی پنسل چرالی۔ منوں نے مس سے شکایت کردی۔ مس نے چنوں کی طلبی کے بعد ڈانٹ ڈپٹ کی۔ اب دونوں کے مکالمے سنیں مس میں نے اس کی پنسل چرائی ہی نہیں یہ تو پانچ دس روپے کی پنسل ہے لیکن منوں نے تو گوگے کا پورا بیگ غائب کیا تھا۔ اس پر کوئی آواز نہیں اٹھی۔ ایک اور پرائمری اسکول چلتے ہیں۔ اقبال… دیر سے کیوں آئے ہو۔ مس وہ… وہ، کیا وہ وہ لگا رکھی ہے۔ مس کل شاہد بھی تو دیر سے آیا تھا… ارے تم کیوں دیر سے آئے ہو… مس… مس وہ طارق بھی دیر سے آتا ہے۔ اور مس سر پکڑا کر بیٹھ جاتی ہیں۔ اس قسم کی باتوں پر ہر باشعور فرد کو ہنسی آتی ہے لیکن یہ بچوں کی باتیں ہیں ان کو بچوں کی باتیں سمجھنا چاہیے۔ اب اگر کوئی مماثلت ان باتوں اور آج کل کے سیاسی رہنمائوں کی باتوں میں نظر آئے تو اسے محض اتفاق سمجھا جانا چاہیے۔ کئی روز سے ہمارا میڈیا جو اب دو واضح حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے، عمران خان کا حامی اور عمران خان کا مخالف… ایک طرف سے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ، فارن فنڈنگ وغیرہ کا شوشا ہے تو دوسری طرف توشہ خانے کی گھڑی خریدنے والے کے خلاف کیس کرنے کی خبر ہے لیکن پتا نہیں چنوں کیوں یاد آگئے… ملاحظہ فرمائیں۔
ایک اخبار کی خبر ہے۔ چند کروڑ کی گھڑی پر شور ہے اور 11 سو ارب کی معافی پر کوئی بات نہیں کرتا۔ عمران خان، ان کے نزدیک محض چند کروڑ کی کوئی حیثیت نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارا مزاج بن گیا ہے کہ ہم نے غلطی کی تو غلطی نہیں حق تھا اور دوسرے نے کی تو غداری، بغاوت، ڈاکا چوری اور سب کچھ ہے۔ اس لیے 11 سو ارب کی چوری بڑی ہے لیکن اربوں کی گھڑی کروڑوں میں بیچ دینا کوئی بری بات نہیں۔ اور ہاں چار سال میں 11 سو ارب میں سے 11روپے بھی برآمد نہیں کیے جاسکے۔
اس قسم کی باتیں اسکولوں کے بچے کریں تو ہمیں ہنسی آتی ہے لیکن قومی قیادت کے منصب پر براجمان لوگ کریں تو ٹی وی ٹاک شو کا موضوع بنتا ہے، اور یہی کچھ کیا جارہا ہے، ایک شخص بندہ تو ایماندار ہے کا لیبل لگا کر اقتدار میں آتا ہے اور وہ اربوں روپے کی گھڑی کروڑوں روپے میں فروخت کرکے اس کی اصل قیمت کروڑوں ہی قرار دے رہا ہے اور اس پر ذرا بھی شرمندگی نہیں اور یہ بھی نہیں کہ کروڑوں کی چوری ہوگئی تو کوئی بات نہیں 11 سو ارب روپے کی چوری ہو تو بات بنے گی۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عمران خان کی گھڑی کروڑں میں بیچنے کا ثبوت سامنے آگیا اور دو خاندانوں کے 11 سو ارب روپے چرانے کا ثبوت چار سال میں پی ٹی آئی نہیں لاسکی تو اب کیسے آئے گا۔ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل جب پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت ہٹائی گئی تھی تو صدر مملکت وفاقی حکومت کی جانب سے بھیجی جانے والی ہر سمری پر اڑنگا لگا رہے تھے۔ اس لیے ایک خطرہ یہ بھی تھا کہ صدر مملکت نئے آرمی چیف کے تقرر کے موقع پر بھی کوئی ایسا کام کریں گے جس سے نیا فساد کھڑا ہوجائے۔ لیکن یہ اعتراض یا آرمی چیف کے تقرر میں کوئی رکاوٹ ڈالنا کس کے مفاد میں ہوتا۔ یہ سوال بھی جواب طلب نہیں ہے بلکہ دیواروں پر لکھا صاف نظر آرہا ہے کہ اس سارے جھگڑے کا نقصان پاکستان کو اور پاکستانی فوج کو ہی ہورتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ان سارے جھگڑوں کو ختم کیسے کیا جائے۔ کیا موجودہ حکمران اور اپوزیشن جماعتوں اور رہنمائوں میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ قومی لیڈر بنیں اور کہلائیں اور تمام سیاست اور سرگرمیوں میں ملکی مفاد کو مقدم رکھیں۔ ایسا بظاہر نظر نہیں آتا۔ اب یہ امتحان جنرل عاصم منیر کا ہوگا کہ وہ کس طرح فوج کو پروفیشنل برقرار رکھیں۔
یہ حالات ایسے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ انتخابی نظام کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں لیکن اس سے قبل یہ ضروری ہے کہ انتخابی میدان کے کھلاڑیوں کی اصلاح کی جائے۔ ان کھلاڑیوں میں صرف سیاستدان نہیں ہیں۔ فوج بھی ہے، خفیہ ادارے بھی ہیں، بیوروکریسی بھی ہے۔ قانون سب کے دائرے متعین کرتا ہے لیکن اپنے دائرے سے باہر رہنے والا دوسرے کو کہتا ہے کہ دائرے میں رہیں قبلہ…!!! جب تک یہ کھیل ہوتا رہے گا کہ خود دائروں سے باہر رہیں اور دوسروں کو تلقین کرتے رہیں تو کبھی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ گزشتہ چھے ماہ سے ایک ہی کھیل جاری تھا کہ پاکستان کا آرمی چیف کون ہوگا۔ اتنا شور اٹھا کہ خدا کی پناہ… میرا آرمی چیف تیرا آرمی چیف اس شور کے سبب اگر جنرل قمر جاوید باجوہ کے دل میں مزید توسیع کی خواہش کی کوئی رمق بھی تھی تو وہ نکل گئی کیونکہ اس کے نتیجے میں سارا ملبہ پاک فوج پر آرہا تھا، وہ اپنے حصے سے زیادہ منصب پر رہ گئے، اب انہیں جانا ہی تھا۔ جاتے جاتے ابھی چند دن میں وہ کچھ کام کرسکتے ہیں۔ کچھ تو کرلیے۔ دو ٹوک اعلان کیا کہ میں توسیع نہیں لوں گا، پھر دوسرا اعلان یہ کیا کہ فوج سیاست سے دور رہے گی، جس کا سب نے خیرمقدم کیا لیکن فوج کے نیوٹرل ہونے پر عمران خان نے اسے جو کچھ کہا اس کا وہی جواب دے سکتے ہیں۔ نیوٹرلز، نیوٹرلز کی تکرار کے بعد جب یہ یقین ہوگیا کہ جنرل باجوہ اب نہیں رہیں گے تو بیانیہ بدل گیا کہ جس کو مرضی آرمی چیف لگا لو مجھے کچھ مسئلہ نہیں ہے، تو لگانے والوں نے جس کو مرضی آرمی چیف لگادیا۔ اب تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ جنرل آیا جنرل گیا، تمہیں کیا… ہوسکتا ہے خان صاحب کہیں کہ مجھے کیا!!! جنرل باجوہ کا ایک اور اہم اعلان ہے کہ سیاست دان بھی فوج کی طرح اصلاح کریں۔ ان کا یہ بیان براہ راست حکمرانوں اور اپوزیشن کے لیے ہے، لیکن یہ بیان نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے لیے بھی ہے۔ لیکن وہ فوج کی نیوٹرل حیثیت برقرار رکھیں گے، اور کیا واقعی فوج نیوٹرل ہے اور رہے گی۔ یہ وہ کروڑ روپے کا سوال ہے جس کا جواب گزشتہ پچاس ساٹھ برس سے تو نہیں مل رہا۔ فوج نیوٹرل رہ کر بھی دخیل رہتی ہے اور دخیل رہ کر بھی نیوٹرل، اگر فوج نیوٹرل ہے اور رہے گی تو سیاست کا میدان قانون کے مطابق سیاست کے لیے آزاد چھوڑ دیں پھر فوجی گملے کی تمام پنیریوں کو پاکستانی عوام کی سنڈی لگ جائے گی۔ یہ سارے ایک دو الیکشن کی مار نہیں ہیں۔
اگر الیکشن کمیشن، فوج، حکومت اور خفیہ ادارے ایک طرف ہوجائیں فوج اپنا آر ٹی ایس اٹھا کر پھینک دے یا خود مختار الیکشن کمیشن کو دے دے، اور الیکشن کمیشن قانون کے دائرے سے نکلنے والوں کو نااہل قرار دے کر میدان سے باہر کرے تھوڑا شور مچے گا، میڈیا کو بھی الزام کی بنیاد پر کسی کو مجرم ثابت کرنے سے روکا جانا چاہیے۔ ان دائروں میں تمام ادارے رہیں توکوئی بھی چنوں کسی منوں کی پنسل نہیں چراسکے گا۔
اب جنرل باجوہ کیا کریں چند دن تو رہ گئے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ پاکستانی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی بے قصور ہے۔ اس کی پاکستان واپسی کی راہ میں رکاوٹ پاکستان ہی میں ہے اور وہ یہ رکاوٹ ختم کردیں تو عافیہ پاکستان آسکتی ہے۔ اس کے گھر والے ہر قسم کی ضمانت دینے کو تیار ہیں۔ جنرل باجوہ یہ کام کردیں تو عمران خان کو مسلط کرنے اور ان کی سرپرستی کرنے کے سارے بوجھ کو اپنے سر سے اتارنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ سنا ہے کہ مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے اور جرنیل کبھی ریٹائر تو نہیں ہوتا اور باجوہ صاحب تو ابھی آرمی چیف ہیں۔ تو اٹھیے محمد بن قاسم کی طرح معصوم عورت کی پکار پر لبیک کہیں، انہیں محمد بن قاسم ہی کی طرح یاد رکھا جائے گا۔