ساون کے اندھے

520

معرض وجود میں آنے کے بعد پاکستان مختلف مشکلات سے دوچار رہا ہے کبھی معیشت کا بحران، کبھی قیادت کا بحران، مگر ان دنوں جن مشکلات اور مصائب سے دوچار ہے وہ ناقابل برداشت ہیں، عمران خان جب سے ایوان اقتدار سے باہر آئے ہیں، باہر نکلو باہر نکلو کا ورد کیے جارہے ہیں، لانگ مارچ کی ناکامی کے تاثر کو زائل کرنے کے لیے عمران خان پر حملے کا ڈراما رچایا گیا مگر یہ کبھی ثابت نہیں ہو سکے گا کہ حملے کی سازش کس نے کی تھی عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنما کہتے تھے کہ دس کروڑ افراد اسلام آباد پہنچیں گے اور پھر کوئی بھی شخصیت خواہ کتنی ہی پہنچی ہوئی کیوں نہ ہو اسے عمران خان کے حضور سرنگوں ہونا پڑے گا، مگر کہنے والے یہ بھول گئے کہ وزارت عظمیٰ عمران خان کی کمائی نہیں تھی کسی کی دی ہوئی خیرات تھی جو شخص خیرات دے کر واپس لے لے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے اس پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بھروسا کرنے والوں کے انجام سے سبھی واقف ہیں۔
فیصل واوڈا نے عمران خان کے لانگ مارچ کو فرلانگ مارچ کا نام دیا ہے، جس نے لانگ مارچ کو اسم بامسمیٰ کے درجے پر فائز کر دیا ہے، فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ جتنے لوگ عمران خان کے مارچ میں شامل ہوتے ہیں ان سے زیادہ تعداد ان کے ملازمین کی ہے لانگ مارچ کے اعلان پر انہوں نے کہا تھا کہ لانگ مارچ کرنے والے دراصل خونیں مارچ کرنے جارہے ہیں اور پھر ساری دنیا نے اس مارچ کی خوں فشانی دیکھ لی، گویا یہ لانگ مارچ نہیں تھا شغل خوں آشامی تھا، عمران خان پر حملہ ہوا مگر چار کارکن زخمی ہوئے شاید اسی حوالے سے عمران خان کہتے ہیں کہ انہیں چار گولیاں لگی ہیں، مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ عمران خان کو گولی نہیں لگی، رسوائی اور بدنامی کا غم لگا ہے، گولیاں لگی ہیں یا نہیں لگیں یہ ایک تحقیق طلب امر ہے مگر مریم اورنگزیب کا کہنا درست ہے کہ عمران خان کو رسوائی کا غم لگا ہے، رسوائی کا غم ایسا ظالم ہوتا ہے جو گولی کے زخم سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور اذیت ناک ہوتا ہے، سو عمران خان اسی اذیت اور تکلیف دہ احساس میں مبتلا ہیں، گولی کا زخم تو بھر جاتا ہے مگر رسوائی ایسا زخم ہے جو کبھی نہیں بھرتا ہمیشہ ساون کے اندھے کی طرح ہرا ہی رہتا ہے۔
عدالت عظمیٰ از خود نوٹس لینے میں بڑی پھرتی کا مظاہرہ کرتی ہے مگر جو کچھ تحریک انصاف کے کارکن کررہے ہیں اسے دکھائی نہیں دیتا، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا شمار بھی ساون کے اندھوں میں ہوتا ہے، جو شخص بھی چیف جسٹس پاکستان کے عہدے پر فائز ہوتا ہے اسے ہر طرف امن ہی امن دکھائی دیتا ہے مگر جونہی وہ اپنی مسند سے اترتا ہے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دینے لگتا ہے، چیف جسٹس پاکستان عمر بندیال کو بھی ہرا ہی ہرا دکھائی دے رہا ہے مگر جب وہ گھر چلے جائیں گے، گھر تو وہ روز ہی جاتے ہیں، ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب گھر جاکر واپس نہیں آئیں گے۔
یہ بات بچہ بچہ جانتا ہے کہ ملک میں امن و امان برقرار رکھنا عدلیہ کی ذمے داری ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے کارکن جو کچھ کررہے ہیں عدلیہ کو دکھائی کیوں نہیں دیتا مسلک عمرانیہ کے چند نوجوان موٹر سائیکلوں پر آتے ہیں اور انہیں سڑک پر کھڑا کر کے روڈ بلاک کردیتے ہیں جس سے ٹریفک جام ہو جاتی ہے آمدو رفت بند ہو جاتی ہے ملازمت پر آنے جانے والے بے بس ہو جاتے ہیں، مریض اسپتال نہیں جاسکتے اور پولیس خاموش تماشائی بنی یہ تماشا دیکھتی رہتی ہے، اگر عدلیہ نے اس معاملہ میں پولیس سے جواب طلبی نہ کی تو پھر یہ ڈرامے بازی پاکستان کا مستقبل بن جائے گی اس بات سے تو سبھی واقف ہیں کہ ایم کیو ایم کی اصل طاقت یہی تھی کہ وہ سڑکوں کو بلاک اور بازاروں کو بند کر دیا کرتی تھی اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی تھی اور اب تحریک انصاف بھی اسی حکمت عملی کا عملی مظاہرہ کررہی ہے اگر حالات اسی نہج پر چلتے رہے تو پھر پنجاب اور خیبر پختون خوا میں ایم کیو ایم دوسرا جنم لے لے گی، شاید ہم کچھ غلط کہہ گئے کیونکہ دوسرا جنم تو لے ہی چکی ہے، ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ دوسرے جنم میں زیادہ خطرناک اور طاقتور ثابت ہوگی، سو، ضرورت اس امر کی ہے کہ ایم کیو ایم کو روکنے کے لیے عدلیہ اور فوج کو اپنی ذمے داری نبھانے کے لیے میدان عمل میں آنا ہوگا۔
اب یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں رہی کہ عمران خان کی سیاست کا مقصد پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنا ہے اور وہ ایسا کرنے کا کوئی بھی موقع نہیں گنواتے جو پاکستان کی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہو عمران خان اسمبلی میں جانا نہیں چاہتے پھر الیکشن میں حصہ کیوں لیتے ہیں، محتاط اندازے کے مطابق ایک حلقہ انتخاب میں پچاس کروڑ روپے سے زائد خرچ ہوتے ہیں، ضمنی الیکشن میں 8قومی اسمبلی اور 3صوبائی اسمبلی کے انتخابات کرانے پر لگ بھگ سات ارب روپے خرچ ہوئے جس نے معیشت کی گرتی ہوئی دیوار کو ایک اور لات رسید کر دی، عمران خان مسلسل یہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ شہباز شریف نے 16ارب روپے کی چوری کی ہے، اگر موصوف اپنے گریبان میں جھانکیں تو انہیں کئی 16ارب دکھائی دیں گے موصوف کا ارشاد گرامی ہے کہ اپنے دور اقتدار میں صرف پانچ چھٹیاں کی ہیں وہ بھی کورونا ہونے کے باعث، نیب اور عدالتیںمیرے اختیار میں نہیں تھیں، شوگر، تیل اور بلڈر مافیا بہت طاقتور ہے جس نے مجھے بے بس کررکھا تھا، اصل اقتدار انہیں کے ہاتھوں میں تھا، عمران خان نے ضمنی الیکشن میں قومی اسمبلی کی سات نشستوں سے الیکشن لڑا، حالانکہ وہ پہلے ہی رکن قومی اسمبلی تھے مگر عدلیہ اور الیکشن کمیشن نے کوئی اعتراض نہیں کیا، آخر کیوں؟ عمران خان کو قومی خزانے کو برباد کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے اور کیوں دیا ہے۔