نئی عسکری قیادت سے وابستہ نیک تمنائیں

491

الحمد للہ! مسلح افواج کے نئے سربراہ کی تقرری کا معاملہ احسن انداز میں تکمیل کو پہنچ گیا فریقین نے تحمل، تدبر اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں قوم کو ایک ایسی پریشانی اور ذہنی خلجان سے نجات مل گئی جو مہینوں سے پورے ماحول پر طاری تھا حالانکہ اس کا کوئی جواز موجود نہیںتھا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ معاملہ آئین قانون کے مطابق میرٹ اور سنیارٹی کے اصول پر طے پا گیا ہے مروجہ طریق کار کے مطابق وزارت دفاع کی جانب سے چھ سینئر جرنیلوں کے نام وزیر اعظم کو فراہم کئے گئے جنہوں نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مشاورت کے بعد صدر مملکت کو لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو پاک فوج کا سربراہ جب کہ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا چیئرمین مقرر کرنے کی سفارش کی۔ صدر مملکت کے پاس اگرچہ یہ اختیار تھا کہ وہ اس فائل کو دس دن تک اپنے پاس رکھ سکتے تھے اور ضرورت محسوس کرتے تو نظر ثانی کے لیے وزیر اعظم کو دس دن کے اندر واپس بھی بھیج سکتے تھے اور پھر وزیر اعظم پندرہ یوم کے اندر جو سفارش بھی صدر مملکت کو بھجواتے وہ صدر کے دستخطوں کے بغیر بھی منظور تصور کی جاتی اور روبہ عمل آ جاتی تاہم صدر مملکت نے بہت سے خدشات کے برعکس اپنی پارٹی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں کے پاس فوری طور پر اسلام آباد سے لاہور پہنچ کر مشاورت کی اور کسی تاخیر کے بغیر وزیر اعظم کی ارسال کردہ سمری پر دستخط کر کے ملک و قوم کو کسی نئے بحران اور سیاسی کشیدگی سے بچا لیا اس ضمن میں یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ صدر کے اسلام آباد سے لاہور تک کے سفر کے لیے طیارہ خود وزیر اعظم نے فراہم کیا یوں دو طرفہ جذبۂـ خیر سگالی اور تعاون کے نتیجے میں یہ معاملہ کسی بدمزگی کے بغیر خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ یہی جذبہ اور باہمی تعاون کی روح اگر دیگر امور میں بھی روبہ عمل لایا جائے تو ملک و قوم کے بہت سے مسائل آسانی سے حل ہو سکتے ہیں…!!!پاک فوج کے نئے سربراہ جنرل عاصم منیر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ پہلے حافظ قرآن افسر ہیں جو اس اہم ترین منصب تک پہنچے ہیں۔ انہوں نے منگلا کے آفیسرز ٹریننگ اسکول سے تربیت مکمل کرنے کے بعد پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ دوران تربیت انہیں بہترین کارکردگی پر اعزازی شمشیر عطا کی گئی تربیت کی تکمیل پر انہیں فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن ملا۔ ماضی میں عام طور پر لانگ کورس یعنی پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے تربیت یافتہ افسران ہی پاک فوج کے سربراہ بنتے رہے ہیں، جنرل عاصم منیر کو یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ وہ پہلے افسر ہیں جو منگلا سے فراغت کے بعد پاک فوج کے سربراہ بنے ہیں۔ وہ فوج کے واحد سربراہ ہیں جو اس منصب کو سنبھالنے سے قبل ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کی سربراہی کر چکے ہیں، اسی طرح وہ کوارٹر ماسٹر جنرل کے عہدے پر خدمات انجام دینے والے اب تک کے پاک فوج کے واحد سربراہ ہیں یوں انہیں پاک فوج کے نئے سربراہ کی حیثیت سے کئی منفراد اعزازات حاصل ہیں طویل عرصہ کے بعد وہ ایسے جنرل ہیں جن کی تقرری کے لیے کسی سینئر افسر کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ جنرل عاصم منیر 2014ء میں کمانڈر فورس کمانڈ ناردرن ایریاز بنے جہاں سے انہیں 2017ء میں ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس بنا دیا گیا۔ اکتوبر 2018ء میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر انہیں آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کیا گیا جون 2019ء میں کور کمانڈر گوجرانوالہ بنائے گئے جہاں دو سال خدمات انجام دینے کے بعد اکتوبر 2021ء سے جی ایچ کیو میں بطور کوارٹر ماسٹر جنرل فرائض ادا کر رہے تھے۔ دوران ملازمت اعلیٰ کارکردگی کے اعتراف کے طور پر جنرل عاصم منیر کو ہلال امتیاز بھی دیا گیا…!نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا پاک فوج کے دماغ کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں وہ تربیتی اور خارجہ امور میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔ اپنے فوجی کیریئر کا آغاز پی ایم اے سے تربیت مکمل کرنے کے بعد آٹھ سندھ رجمنٹ سے کیا، سنیارٹی کے لحاظ سے اس وقت فوج میں دوسرے نمبر پر تھے اس طرح ان کی تقرری سے بھی کوئی دوسرا افسر نظر انداز نہیں ہوا۔ بطور لیفٹیننٹ کرنل، بریگیڈئر اور میجر جنرل ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ میں خدمات انجام دیتے رہے۔ 2015ء سے 2018ء تک ڈی جی ملٹری آپریشنز رہے۔ 2018ء میں وائس چیف آف جنرل اسٹاف بنے ۔ جون 2019ء میں چیف آف جنرل اسٹاف بنائے گئے، مختصر عرصے کے لیے ایڈجوائینٹ جنرل جی ایچ کیو بھی رہے۔ ستمبر 2021ء سے کور کمانڈر راولپنڈی کے طور پر مشہور زمانہ ٹین کور کی قیادت کر رہے ہیں۔ جنرل ساحر شمشاد پاکستان، چین، افغانستان اور امریکہ پر مشتمل چار فریقی رابطہ گروپ میں افغان مذاکرات کا حصہ بھی رہ چکے ہیں ان کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ انہوں نے پاک فوج کے ریکارڈ میں اپنے وراثتی جانشین کے طور پر کسی عزیز رشتے دار کی بجائے اپنی رجمنٹ کا نام درج کروا رکھا ہے جو پاک فوج سے ان کی گہری وابستگی کا اظہار ہے…!یوں پہلی نظر ہی میں یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلح افواج کی یہ تقرریاں میرٹ اور سنیارٹی کے اصول پر کی گئی ہیں اگرچہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ انہوں نے دبائو کے باوجود میرٹ پر تقرری کا فیصلہ کیا ہے تاہم یہ امر اطمینان بخش ہے کہ ان تقرریوں سے قوم میں یک گونہ اتحاد و یکجہتی کا پہلو نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے اور بے یقینی کی فضا سے قوم کو نجات ملی ہے۔ توقع کی جانا چاہئے کہ نئی فوجی قیادت قومی یکجہتی کی اس فضا کو برقرار رکھنے اور اسے آگے بڑھانے میں اپنا مثبت کردار ادا کرے گی اور تمام تر توجہ ملکی دفاع کو مضبوط بنانے اور پاک فوج کی پیشہ ورانہ کارکردگی کو مزید بہتر بنانے پر مرکوز کی جائے گی ملک کو اس وقت ایک جانب مشرق میں بھارت کی طرف سے خطرات لاحق ہیں جس کے مختلف حکومتی اور فوجی عہدیدار آئے دن طرح طرح کی دھمکیاں دیتے سنائی دیتے ہیں، کشمیر کا محاذ اس حوالے سے مسلح افواج کی خصوصی توجہ کا متقاضی ہے۔ مغرب میں افغانستان کی طالبان حکومت اگرچہ پاکستان سے بہتر تعلقات کی خواہاں ہے تاہم وہاں موجود مختلف گروہوں کی طرف سے آئے دن پاکستانی سرحدوں کے اندر کارروائیاں پاکستانی فوج کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ امید ہے کہ نئی عسکری قیادت ان چیلنجوں سے نمٹنے میں کسی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کرے گی تاکہ اندرون ملک اس کی عزت اور وقار بحال ہو سکے جسے گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران بیرونی دشمنوں کی سازش اور بعض اندرونی عناصر کی عاقبت نا اندیشیوں نے سخت نقصان پہنچایا ہے سابق فوجی قیادت اگرچہ بار بار اپنی سیاست سے لاتعلقی کے اعلانات کرتی رہی مگر عوامی اور سیاسی حلقوں میں ان اعلانات کو پذیرائی نہیں مل سکی۔ نئی عسکری قیادت کی ذمہ داری یہ بھی ہو گی کہ وہ سیاسی معاملات میں عدم مداخلت اور خود کو اپنے پیشہ ورانہ امور تک محدود رکھنے کو ہر صورت یقینی بنائے اور اپنے عمل سے قوم کا اعتماد بحال کرے کہ اسی میں ملک و قوم کی فلاح اور بقا ہے…!!!