صدر کے مثبت کردار کے بعد اب معاشی بحال کی طرف بڑھنا ہو گا،خواجہ آصف

309
criminal prosecution

اسلام آباد : وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کی سمری کے حوالے سے صدر مملکت نے جو کردار ادا کیا ہے وہ سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ ہے، انہوں نے اپنے عہدے کا حق برقرار رکھا ہے۔آرمی چیف کی تعیناتی اور صدر مملکت کے مثبت کردار کے بعد اب ہمیں ملکی مسائل اور معاشی ریکوری کی طرف آگے بڑھنا ہو گا۔

جمعرات کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی وی پروگرام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے جب 26نومبر کو لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تو ہمیں بھی اندازہ تھا کہ وہ یہ کیوں کر رہے ہیں اور آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے ایک عصاب شکن معاملہ تھا اس لئے میں نے بار بار کہا کہ 26سے پہلے 24یا25نومبر کو حکومت آرمی چیف تعینات کر دے گی۔

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کے حوالے سے ایک ہیجانی کیفیت پیدا کی گئی اور بال کی کھال اتارنے کی کوشش کی جسے بار بار میں مسترد کرتا رہا اور کہتا رہا کہ سارے اندازے اور قیاس آرائیاں غلط ہے، میڈیا کا حق ہے کہ وہ اندازے لگائے لیکن ہمیں اختیاط کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کی سمری کے حوالے سے صدر مملکت نے جو کردار ادا کیا ہے وہ سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ ، اپنے عہدے کا حق برقرار رکھا ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی اور صدر مملکت کے مثبت کردار کے بعد اب ہمیں ملکی مسائل اور معاشی ریکوری کی طرف آگے بڑھنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عارف علوی کو صدر مملکت نہ ماننے کا بیان اس لئے دیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے کارکن کی طرح کام کر رہے تھے، آج انہوں نے صدر مملکت اور سپریم کمانڈر کا کردار ادا کیا ہے تو اب ان کی تعریف اور تائید کرنا بھی ضروری ہے، آج صدر مملکت نے وزیراعظم کے جہاز میں سفر بھی کیا۔یہ سب خوش آئندہ باتیں ہیں، حکام کو بڑی دیر سے اچھی خبریں نہیں مل رہی، آج ساری اچھی خبریں ملی ہیں،90فیصد لوگوں سے ہیجانی کیفیت ختم ہو گئی ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ چیئرمین تحریک انصاف نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی اور سمری کے معاملے پر یہ بیان دینا کہ وہ آئین میں رہ کر کھیلیں گے تو یہ ان کا اچھا سیاسی سٹروک تھا، سیاسی دانشمندی کا بہترین مظاہرہ کیا، اس کی تعریف ہونی چاہیے۔

خواجہ آصف نے نئے آرمی چیف عاصم منیر کی 27نومبر کو ریٹائرمنٹ اور انہیں 29نومبر کے توسیع کے سوال کا جواب دیا کہ آرمی کی سمری میں بات کی ہے کہ جب کوئی فوجی میجر رینک سے اوپر ریٹائرڈ ہو تو اس کی اجازت وزارت دفاع دیتی ہے، اس کے بغیر وہ سبکدوش نہیں ہو سکتا ہے، جب تک وارت دفاع اس کی ریٹائرمنٹ پر دستخط نہیں کرتی ہے وہ اپنے عہدے پر برقرار رہتا ہے، یہ سارے رول کے مطابق ہے اور اس کے ساتھ برقرار رکھنے کی بھی آپشن رکھی گئی ہے، ایک سال کے لیے سروسز کو توسیع دی جا سکتی ہے، ہم نے اس معاملے پر کوئی جمع تفریق نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا مشرقی پاکستان کے حوالے سے بیان کی تائید کرتا ہوں اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ 1971کی جنگ قطعی طور پر فوجی سکت نہیں تھی لیکن فوج بہادری سے لڑی، اس وقت باوردی حکمران تھے، فوج سیاست میں تھی۔

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف قمر باجوہ نے درست کہا کہ 1971کی جنگ میں ٹوٹل قیدی 93ہزار تھے، ان میں صرف 34 ہزار فوجی تھے جو ڈھائی لاکھ فوج سے لڑ رہے تھے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ سیاستدانوں کا یہ سوچ رکھنا کہ وہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگا کر محفوظ ہو جائیں گے تو یہ درست نہیں، کسی ایک فرد کے ساتھ ادارے سے فائدہ حاصل کرنے کی خواہش رکھنا دعوت گناہ ہے، آئین نے سب کے لیے حدود و قیود رکھ دیا ہے، اس کے مطابق ہی سب کچھ بہتر انداز میں چل سکتا ہے۔