ـ60 سال پہلے کا لاہور‘ اب لاہور وہ نہیں رہا (آخری قسط)

501

جماعت اسلامی کے فعال ہوتے ہی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی عصری مجالس بھی بحال ہوگئیں اور سید مودودی حسب سابق لوگوں سے ملاقات کے لیے نماز عصر کے بعد کوٹھی کے لان میں بیٹھنے لگے، اس کوٹھی میں سید صاحب کی رہائش بھی تھی اور جماعت کے مرکزی دفاتر بھی۔ ابھی منصورہ کی نیو نہیں پڑی تھی اس لیے 5 اے زیلدار پارک میں میلہ سا لگا رہتا تھا۔ جماعت کی مرکزی قیادت نے فیصلہ کیا کہ لاہور میں مولانا مودودی کا ہفتہ وار درس قرآن و حدیث بھی شروع ہونا چاہیے تا کہ اہل لاہور سید صاحب سے براہِ راست دینی فیض حاصل کریں اور ایک علمی اور دینی ماحول بن جائے، اس سے قبل لاہور میں مولانا احمد علی لاہوریؒ کے درس قرآن کی بڑی شہرت تھی، وہ شیرانوالا گیٹ کی جامع مسجد میں نماز
فجر کے بعد درس دیتے تھے اور اس میں سیکڑوں افراد شریک ہوتے تھے۔ شنید ہے کہ ان کے درس میں جنات کی ایک جماعت بھی شرکت کرتی تھی۔ مولانا لاہوری کے انتقال کے بعد یہ مجلس ویران ہوگئی اور لاہور میں کوئی ایسا حلقہ درس نہ رہا جو لوگوں کی توجہ کا مرکز بن سکے۔ سید مودودی نے اپنی علمی، تحقیقی اور سیاسی مصروفیات کے باوجود ہر ہفتے درس قرآن و حدیث دینے پر آمادگی ظاہر کی تو لاہور کی قسمت جاگ اُٹھی، درس کا آغاز موچی دروازے کے سامنے برکت علی محمدن ہال میں ہوا۔ پہلے ہی درس میں اتنا رش ہوگیا کہ جگہ کم پڑ گئی اور سڑک پر ٹریفک کا مسئلہ کھڑا ہوگیا۔ ہال کے باہر پارکنگ کی جگہ تو تھی نہیں۔ گاڑیاں اور موٹر سائیکل سڑک کے کنارے کھڑے کیے جاتے تھے۔ جب درس ختم ہوتا اور لوگ اپنی اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو اسٹارٹ کرتے تو سڑک پر ٹریفک جام ہوجاتی۔ چناں چہ ایک یا دو درس کے بعد ہی اسے مسجد مبارک قلعہ گوجر سنگھ میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو جماعت اسلامی کے زیر اثر تھی اور جس میں جمعیت اتحاد العلما پاکستان کا مرکزی دفتر بھی تھا۔ اس تنظیم کو جماعت اسلامی کی ایک ذیلی شاخ سمجھ لیجیے، اس کا مقصد مختلف مکاتب فکر کے علما کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور نفاذ اسلام کے لیے ان کی طاقت کو بروئے کار لانا تھا۔ مولانا گلزار احمد مظاہری اس تنظیم کے صدر تھے۔ مولانا مظاہری بڑی باغ و بہار شخصیت تھے۔ وہ اکثر ایشیا کے دفتر آیا کرتے تھے اس لیے ان سے ہماری اچھی یاد اللہ تھی۔ مسجد مبارک میں بھی ان سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔
سید مودودی کا درس قرآن و حدیث شروع ہوا تو اس میں لاہور کی اہم علمی شخصیات شریک ہونے لگیں اور یہ شہر کی ایک اہم تقریب بن گئی۔ جب کہ لاہور کے قریبی شہروں گوجرانوالہ، وزیرآباد، گجرات اور جہلم تک سے لوگ باقاعدگی سے آنے لگے۔ درس کے بعد سید صاحب درس سے متعلق حاضرین کے سوالوں کے جواب بھی دیتے تھے۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ لوگ کاغذ پر سوال لکھ کر اسٹیج پر پہنچاتے اور درس کے منتظمین سوال پڑھ کر سید مودودی کے حوالے کردیتے اور وہ اس کا مختصر جواب عنایت فرما دیتے تھے۔ منتظمین کو ہدایت تھی کہ وہ درس سے غیر متعلق خاص طور پر سیاسی اور ذاتی نوعیت کے سوالات ان تک نہ پہنچائیں ورنہ اخلاقاً ان سوالوں کے جواب دینا ان کے لیے لازم ہوجائے گا۔ چناں چہ درس کے فوراً بعد سوالات کی چھانٹی شروع ہوجاتی اور صرف چند پرچیاں ہی سید صاحب تک پہنچ پاتیں۔ سید مودودی اپنی ذات کے حوالے سے بہت بے نیاز تھے۔ وہ اپنے خلاف کسی بھی پروپیگنڈے اور اس سے متعلق کسی بھی سوال کا جواب دینا پسند نہیں فرماتے تھے۔ درس قرآن و حدیث کا یہ سلسلہ کافی عرصہ جاری رہا۔
بتایا جاتا ہے کہ ایک صاحب جو حکومت کی طرف سے درس کی انٹیلی جنس رپورٹ مرتب کرنے پر مامور تھے، درس کے متاثر ہو کر اپنی سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہو کر جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ اس دوران 1965ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بھی لڑی گئی اور 1966ء میں عرب اسرائیل جنگ بھی برپا ہوئی۔ اِن جنگوں سے متعلق بعض سوالوں کے جواب البتہ آپ نے خلافِ معمول درس کے موقع پر دیے۔ 1965ء کی جنگ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ حکمرانوں کو پہلی مرتبہ یہ اندازہ ہوا ہے کہ اسلام ہی انہیں دشمن کی یلغار سے بچا سکتا ہے ورنہ اس سے پہلے تو وہ اسلام کو دیس نکالا دینے کی سوچ
رہے تھے۔ عرب اسرائیل جنگ کے حوالے سے ایک صاحب کا سوال تھا کیا موشے دایان دجال ہوسکتا ہے؟ موشے دایان شاید اسرائیل کا وزیرخارجہ تھا اس کی ایک آنکھ خراب تھی لیکن وہ عینک لگانے کے بجائے خراب آنکھ پر ٹوپا باندھتا تھا اور اپنے اشتعال انگیز بیانات کے سبب مغربی میڈیا میں ہیرو بنا ہوا تھا۔ سید مودودی نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ موشے دایان کے دجال ہونے کے بارے میں کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا لیکن اس کی حرکتیں دجالی ضرور ہیں۔ سید مودودی کی خرابی صحت اور سیاسی مصروفیات کے سبب درس کا سلسلہ برقرار نہ رہ سکا۔ درمیان میں کئی کئی ہفتوں کے وقفے آتے رہے پھر درس مکمل طور پر منقطع ہوگیا۔ تاہم سید صاحب نے جتنے بھی درس دیے حفیظ الرحمن احسن نے انہیں ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے محفوظ کرلیا تھا بعد میں ان کی مارکٹنگ بھی کی گئی اب بھی ان کے ٹیپ دستیاب ہیں۔
1960ء کے عشرے میں لاہور آغا شورش کاشمیری کی شاعری اور خطابت سے بھی گونج رہا تھا۔ آغا صاحب کمال کے شاعر اور بلا کے خطیب و مقرر تھے، ان کا ہفت روزہ چٹان بھی افق صحافت پر چھایا ہوا تھا۔ انہوں نے قادیانیت کے خلاف جہاد کو اپنا مشن بنا رکھا تھا اور نظم و نثر کی تلواروں سے اس کا تعاقب کررہے تھے۔ وہ سیاسی طور پر تو حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ سے وابستہ تھے لیکن نظریاتی اعتبار سے جماعت اسلامی کے حامی تھے اور سید مودودی کا دل سے احترام کرتے تھے۔ جماعت اسلامی کے کُل پاکستان اجتماع کے موقع پر انہوں نے مولانا مودودی کا نہایت خوبصورت خاکہ تحریر کیا تھا جو چٹان میں شائع ہوا اور بہت پڑھا گیا۔ دونوں شخصیات کے درمیان باہمی احترام پر مبنی دوستانہ تعلقات قائم تھے اور آغا صاحب 5 اے زیلدار پارک اچھرہ میں حاضری دیتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ شرپسندوں نے چٹان کے دفتر پر حملہ کرکے اسے نذر آتش کردیا سید مودودی کو اطلاع ملی تو آپ آغا صاحب سے اظہار افسوس کے لیے چٹان کے دفتر گئے اور وہاں کچھ دیر بیٹھے رہے۔ فرشی نشست تھی اور دونوں حضرات ایک دوسرے کے بالمقابل بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے۔ سید مودودی کی چٹان کے دفتر آمد ایک بڑی خبر تھی اور راقم سمیت کئی اخبار نویس وہاں پہنچ گئے تھے۔ اس موقع پر آغا صاحب نے سید صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا ’’مولانا آپ سلامت رہیں باقی سب خیر ہے، میں ان بدمعاشوں سے نمٹنا خوب جانتا ہوں‘‘۔
1960ء کے عشرے کے ایک اہم ادیب اور ہمہ جہت نثرنگار لالہ صحرائی بھی تھے۔ ان کی رہائش تو جہانیاں ضلع ملتان میں تھی لیکن وہ جیلانی صاحب سے ملنے کے لیے اکثر لاہور آتے رہتے تھے۔ جیلانی صاحب سے ان کی پرانی دوستی تھی وہ شاید لاہور میں جیلانی صاحب کے گھر ہی قیام فرماتے تھے کیوں کہ جب صبح وہ ایشیا کے دفتر تشریف لاتے تو ہمیشہ جیلانی صاحب ان کے ہمراہ ہوتے تھے۔ پھر محفل جمتی اور خوب باتیں ہوتیں۔ راقم کے ساتھ بھی خصوصی شفقت فرماتے، جب لاہور آنے میں تاخیر ہوتی تو باقاعدہ خط لکھ کر وجہ تاخیر بیان فرماتے، اپنی نثر کی طرح ان کی لکھائی بھی بہت خوبصورت تھی، وہ لکھتے کیا تھے کاغذ پر لفظوں کے موتی پروتے تھے۔ ممتاز شاعر اور افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی سے بھی لالہ صحرائی کی بہت پرانی دوستی تھی، یہ دوستی قیام پاکستان سے بہت پہلے کی تھی۔ دونوں میں نظریاتی طور پر تو بعدالمشرقین تھا لیکن یاروں کو صرف اپنی یاری سے غرض تھی جو صرف اخلاص اور باہمی احترام و محبت کے دھاگے سے بندھی ہوئی تھی۔ لالہ صحرائی لاہور آتے جو قاسمی صاحب سے ملنے بھی ضرور جاتے۔قاسمی صاحب نے ان کی وفات پر جو تعزیتی مضمون لکھا اس کے دو تین جملے ملاحظہ ہوں ’’لالہ صحرائی محبت اور نیکی کے معاملے میں استقامت کے ایک معجزے سے کم نہ تھے وہ اُن اِکا دُکا افراد میں شامل ہیں جن کے دم سے یہ دُنیا قائم ہے، ورنہ اس کو تہس نہس کرنے میں ہم میں سے کسی نے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا‘‘۔ لاہور میں نعیم صدیقی تھے، نصر اللہ خان عزیز تھے، گیلانی برادران یعنی صدیق الحسن گیلانی اور اسد گیلانی تھے۔ سیاستدانوں میں میاں طفیل محمد، نوابزادہ نصر اللہ خان اور خواجہ رفیق تھے اور شاعروں اور ادیبوں کی بڑی کھیپ موجود تھی مگر فرداً فرداً ان سب کا تذکرہ کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے گی۔ یہ سب لوگ آہستہ آہستہ اللہ کو پیارے ہوگئے اور لاہور اجڑ کر رہ گیا، اب لاہور وہ نہیں رہا جو 1960ء کے عشرے میں تھا۔