پنڈی آنے والوں کو خوش آمدید

500

ممکن ہے جب تک یہ تحریر آپ کی نظر سے گزرے ہم ایک عظیم بوریت سے نجات حاصل کرچکے ہوں اور وہ ہے نئے آرمی چیف کی تعیناتی۔ اس موضوع پر بے تحاشا قیاس آرائیاں کی گئیں ہیں۔ اخباری کالم، ٹی وی پروگرام، وی لاگز اور سوشل میڈیا ہر جگہ اس موضوع کی تکرار رہی۔ آرمی چیف کون ہوگا؟ اپوزیشن، حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کس کی مرضی کا ہوگا؟ گلی محلوں یا بازاروں کا چکر لگائیں تو ایک نگاہ میں بھا نپ لیا جاسکتا ہے کہ یہ عام آدمی کا مسئلہ نہیں ہے۔ عام آدمی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نیا آرمی چیف کون ہوگا؟ فوج آئین یا جمہوریت کی پاسداری کرے گی یا نہیں؟ غیر جانبدار ہوگئی ہے یا ابھی تک جانب دار ہی ہے؟ نئے آرمی چیف کو حکومت یا اپوزیشن کس کی خوشی زیادہ عزیز ہوگی؟ نیا چیف سیاسی ہوگا یا غیر سیاسی؟ دیکھا جائے تو نیا آرمی چیف وزارت دفاع کے تحت محض ایک عہدے پر تقرر ہے لیکن اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو آپ پاکستان کی سیاست اور معاملات کو نہیں جانتے۔ پاکستان میں معاملات اتنے سادہ نہیں ہوتے۔
آرمی چیف اور وزرائے اعظم کے تعلق میں ایک بات حتمی ہے۔ جنرل جہانگیر کرامت کے استثنا کے سوا ہر آرمی چیف اپنے محسن وزیراعظم کا دشمن ثابت ہوا ہے۔ 1990 کی دہائی کے آخر میں جب جنرل جہانگیر کرامت وزیراعظم نواز شریف سے تنازع کا شکار ہوئے تھے تو انہوں نے ازخود استعفا دے دیا تھا۔ وگرنہ ہر آرمی چیف نے اپنے محسن وزیراعظم کو کروٹ کروٹ نقصان پہنچایا ہے۔ جنرل ایوب خان نے صدر اسکندر مرزا کو برطرف کیا۔ جنرل یحییٰ خان نے صدر ایوب کو گھر کی راہ دکھائی۔ جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا۔ جنرل وحید کاکڑ نے صدر غلام اسحاق خان کی ایوان صدر سے رخصت کا بندوبست کیا، جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو سعودی عرب جلا وطن کیا، جنرل اشفاق کیانی نے جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خاتمے کی بساط بچھائی، جنرل راحیل شریف نے دھرنے کے ذریعے نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کی کوشش کی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو وزرائے اعظم نواز شریف اور عمران خان کی حکومتوں کی روح قبض کی۔ آرمی چیفس کی ان دخل اندازیوں اور اپنے وزرائے اعظم کی حکومتوں کو پٹڑی سے اتارنے کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ وزرائے اعظم کو یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ وہ جسے آرمی چیف نامزد کریں گے وہ ان کا اور ان کی حکومت کا وفادار رہے گا حالانکہ آرمی چیف صرف اور صرف اپنے ادارے اور انسٹی ٹیوٹ کا وفادار ہوتا ہے اور اپنے ادارے کے مفادات کی نگرانی کرتا ہے۔ یہ بات اتنے تواتر سے دہرائی جا چکی ہے کہ اب تقریباً قاعدہ کلیہ بن گئی ہے لیکن ہمارے خیال میں مکمل طور پر ایسا نہیں ہے۔ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف اور اب جنرل قمر جاوید باجوہ کے بارے میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ان کے پیش نظر اپنے ذاتی مفاد نہیں تھے۔ ان کے پیش نظر ادارے سے زیادہ ان کے ذاتی عزائم تھے۔ چند ایک کو چھوڑ کر بیش تر آرمی چیفس اپنے پیشہ ورانہ معاملات سے زیادہ ریاستی معاملات میں فوج کے وسیع ترکردار کو قومی مفادکے مطابق سمجھتے تھے جس کا نتیجہ ان کی مدت اقتدار کی توسیع کی صورت میں نکلتا تھا۔ کہا جارہا ہے کہ آئندہ فوج کسی بھی سیاسی تنازع میں پڑنے کے بجائے صرف اور صرف اپنے پروفیشنل کاموں تک محدود رہے گی۔ یقینا ایسا ہی ہونا چاہیے۔ یہ فیصلہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ اتنی خرابی کے بعد بھی اگر اس فیصلے پر عمل ہو جائے تو بہتر ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ نئے آرمی چیف کی نامزدگی کا عمل آغاز ہوچکا ہے۔ نیا آرمی چیف جو بھی بنے اگر وہ محض اپنے پیشہ ورانہ معاملات تک محدود رہتے ہیں تو اس ملک میں یہ ایک نئی روایت ہوگی وگرنہ ہماری تاریخ یہی رہی ہے کہ چند ماہ بعد ہی آرمی چیف کو القا ہوتا ہے کہ ریاستی معاملات میں اس کا فہم وفراست حکومتی ٹیم سے وسیع تر ہے۔ جنوں کے ان آثار کو کچھ ارد گرد جمع ہو جانے والے مصاحب بھی دیوانگی میں بدل دیتے ہیں۔ جڑواں شہروں میں طاقت کے مراکز میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں۔ ملک کو درپیش بیرونی خطرات اور دہشت گردی ایسے موضوع ہیں جنہیں جواز بناکر با آسانی منتخب حکومت کے معاملات میں مداخلت کی جا سکتی ہے۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ ’’جسے چاہیں آرمی چیف لگادیں، 26نومبر کو سب کو سرپرائز ملے گا۔ لانگ مارچ راولپنڈی کیوں جارہا ہے۔ حکمت عملی جلد سمجھ میں آجائے گی‘‘۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو دبائو میں لانے کے ان کے تمام حربے ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ ان کا وضع کردہ ہر بیانیہ جھوٹ پر مبنی ثابت ہوکر ان کی ناکامی پر ختم ہورہا ہے۔ عوامی اجتماعات منعقد کر کے اور سڑکیں گرم کرکے انہوں نے جو بھی کوششیں کی ہیں وہ بے نتیجہ ثا بت ہوئی ہیں۔ اب وہ آرمی چیف کی تعیناتی سے لے کر، حکومت کے خاتمے، قبل ازوقت انتخابات اور اسلام آباد لانگ مارچ سب سے دستبردار ہوتے جارہے ہیں۔ ان پر حملے سے پہلے بھی لانگ مارچ کامیابی کا کوئی بے مثال واقعہ ثابت نہیں ہوسکا تھا لیکن ان پر حملے کے بعد شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کی قیادت میں یہ محض مذاق بن کر رہ گیا۔ اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لانگ مارچ اسلام آباد جاتا ہے یا راولپنڈی۔ اول میں تو اس کے امکان نہیں ہیں لیکن اگر وہ 26نومبر کو راولپنڈی لاکھوں افراد کا مجمع بھی لے کر چلے گئے تب بھی کچھ نہیں ہوگا۔ راولپنڈی جانے کا فیصلہ ان کا اپنا ہے۔ کسی نے ان کے ترلے نہیں کیے کہ وہ اسلام آباد نہ جائیں۔ کسی کو ان کے اسلام آباد آنے سے کوئی خوف ہے اور نہ راولپنڈی۔
عمران خان کسی مفاہمت کے انتظار میں تاخیری حربے آزما رہے ہیں۔ 26نومبر کی تاریخ وہی ہے جو نئے آرمی چیف کی نامزدگی کی ہے۔ مفاہمت کی ہر راہ انہوں نے بند کردی ہے۔ انہوں نے سب کو بند گلی میں کھڑا کردیا ہے۔ نہ حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ عمران خان کی طرف کسی بھی عنوان سے دوستی کا ہاتھ بڑھا سکے اور نہ عمران خان ہی اس پوزیشن میں ہیں کہ کوئی بیچ کا راستہ نکال سکیں۔ سیاست میں مفاہمت کو زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن یہ عمران خان کی سیاست کا کرشمہ ہے کہ انہوں نے مفاہمت کو سیاسی موت کی شکل دیدی ہے۔ کسی بھی معاملے میں کسی فریق کے لیے مفاہمت کی کوئی راہ نہیں۔ عمران خان کی تمام کوششوں کا محور یہی تھا کہ جنرل باجوہ ان کی مرضی کی مفا ہمت کرانے پر مجبور ہو جائیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ عوامی دبائو کے ذریعے ایسا کرسکیں گے لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ ساٹھ سے زائد جلسے کرنے اور لانگ مارچ کے باوجود وہ ایسا کوئی دبائو تخلیق کرنے میں ناکام رہے ہیں اور پورا ملک بندگلی میں آ کھڑا ہوا ہے۔ وہ 26نومبر کو پنڈی آجائیں۔ خوش آمدید۔ پنڈی والوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔