سپریم کورٹ نے پولیس میں سیاسی مداخلت پر  پنجاب حکومت سے جواب طلب کر لیا

289

اسلام آ باد : سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو سیاسی مداخلت پر پولیس افسران کے تبادلہ پر جواب طلب کر لیا۔ سپریم کورٹ میں پنجاب محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت پر ٹرانسفر پوسٹنگ کیس کی سماعت ہوئی ۔

سپریم کورٹ نے درخواست گزار وکیل کی استدعا پر مقدمہ کا دائرہ وفاق اور دیگر صوبوں تک وسیع کرتے ہوئے وفاق اورباقی صوبوں سے بھی پولیس میں ٹرانسفر پوسٹنگ پر جواب طلب کر لیا۔

عدالت نے وفاق اور صوبوں سے گذشتہ آٹھ سالوں میں محکمہ پولیس میں ٹرانسفر پوسٹنگ کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے دو ہفتوں میں وفاق اور صوبوں کو جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔

 چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت دو ہفتوں تک ملتوی کردی۔ وکیل درخواست گزار نے مقف اپنایا کہ محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت پر افسران کے تبادلے عوامی اہمیت بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔

 چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پولیس افسران کے تسلسل کیساتھ تبادلوں سے پولیس کمانڈ اور کارکردگی سے فرق پڑتاہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے مقف اپنایا کہ پولیس افسران کے تبادلے سیاسی مداخلت اور اثر رسوخ سے ہوتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ڈی پی او لیہ کا تبادلہ بھی سیاسی مداخلت پر ہوا۔ ڈی پی او لیہ تبادلہ کی خبریں میڈیا پر ہیڈ لائینز بنی۔

 چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ڈی پی او لیہ کے تبادلہ سے متعلق ہیڈ لائینز نہیں دیکھی۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ڈی پی او لیہ کا تبادلہ لوکل سیاسیتدان کی مداخلت پر ایوان وزیراعلی سے ہوا۔ پولیس نے مزاحمت کی لیکن بلا آخر خاتون ڈی پی او لیہ نے چارج چھوڑ دیا۔

چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ ڈیٹا کے مطابق پنجاب میں ڈی پی او کی اوسط ٹرم پانچ ماہ ہے۔ ڈیٹا کے مطابق چار سالوں میں پنجاب میں 268 ڈی پی اوز کے تبادلے ہوئے۔ جسٹس عاشئہ ملک نے پوچھا کہ یہ اعدادوشمار آپ نے کہاں سے حاصل کیے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ یہ اعداد وشمار سی پی آفس سے حاصل کیے ہیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ پولیس میں سیاسی تبادلوں سے کریمینل جسٹس سسٹم کی کارکردگی پر فرق پڑتا ہے۔ وکیل نے بتایا کہ پنجاب میں آئی جی پولیس کی ایوریج ٹرم 6 ماہ ہے جو قانون کے مطابق تین سال ہونے چاہیے۔ چار سالوں میں پنجاب میں پولیس افسران کو کسی وجہ کے بغیر تبدیل کیا گیا۔

 عدالت نے ریمارکس دیے کہ پولیس افسران کے کسی وجہ سے بغیر تبادلوں سے کریمینل جسٹس سسٹم کی پافار منس پر اثر پڑتا ہے۔ ان حالات میں افسران میں سیاسی اثرو رسوخ سے اعلی عہدے حاصل کرنے کا رحجان بڑھتا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ وکیل درخواست گزار کا کہنا ہے معاملہ کا دائرہ وفاق اور دیگر صوبوں یک بڑھایا جائے۔  وکیل درخواستگزار کے مطابق یہ معاملہ پنجاب تک محدود نہیں۔

 اسلام آباد کے سابق آئی جی بڑے پڑھے لکھے اور ڈیسنٹ افسر تھے۔ عدالتِ عظمی نے کہا کہ سابق آئی جی سندھ ہاوس پرحملہ کے معاملہ بڑے اچھے انداز میں ڈیل کیا۔ سابق آئی جی اسلام آباد بھی تبدیل ہوگئے۔