ریکوڈک کیس: وفاقی اور صوبائی شقوں کا جائزہ لیاجائے، عدالت عظمیٰ

486
Recodek

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون میں دی گئی وفاقی نوعیت کی شقوں کا وفاق اور صوبائی شقوں کا جائزہ صوبائی حکومت لے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی صدارت میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ نے دوران سماعت کہا کہ 1948 کا معدنیات سے متعلق قانون وفاقی اور صوبائی دونوں نوعیت کا ہے، 1948 کا قانون آئین میں دی گئی سکیم کے منافی ہے۔

دورانِ سماعت جسٹس یحیی آفریدی نے کہا ہے کہ کیوں نہ 1948 کے معدنیات ایکٹ کو اس کی اصل حالت میں رہنے دیا جائے، قانون میں دی گئیں وفاقی نوعیت کی شقیں وفاق اورصوبائی شقوں کا جائزہ صوبائی حکومت لے۔

ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ گیس، تیل اور نیوکلیئر انرجی کے علاوہ باقی معدنیات کے لے قانون سازی صوبوں کو کرنی چاہیے۔وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ خیبرپختونخوا کی حد تک 1948 کا معدنیات قانون منسوخ ہوچکا ہے، خیبرپختونخوا میں 2017 میں معدنیات اور کان کنی کے حوالے سے نیا قانون لایا گیا، ریکوڈک مقدمہ اخبار میں چھپنے والے ایسے آرٹیکل سے شروع ہوا جو ہفتے بعد واپس لے لیا گیا تھا،

پاکستانی عدالتی کارروائی کے نتیجے میں ریکوڈک معاملہ عالمی ثالثی عدالت میں گیا، عالمی ثالثی عدالت نے پاکستان پر چھ اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا، ریکوڈک منصوبہ پاکستان میں معدنیات کے شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے دروازے کھولے گا۔