رطب ویابس (حصہ چہارم)

556

واضح رہے کہ خلفائے راشدین کی طرف منسوب اِن روایات کے موضوع اور من گھڑت ہونے کی وجہ سے کوئی اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو کہ نبی کریمؐ کا میلاد منانا اور آپؐ کی ولادت اور تشریف آوری کی خوشی میں صدقات وخیرات کرنا بھی ممنوع اور ناجائز عمل ہے، اس لیے کہ کسی ایسے عمل، جو اپنی اصل کے اعتبار سے خیر ہو اور اس سے کسی سنّت کا ترک بھی لازم نہ آتا ہو، کی بابت حدیث کے موضوع ہونے سے اُس عمل کا ناجائز وممنوع ہونا لازم نہیں آتا۔ محدثین وفقہائے کرام نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے: ’’موضوع حدیث کو حدیث ِ نبویؐ مانتے ہوئے اُس پر عمل کرنا ناجائز وحرام ہے‘‘، لیکن اگر حدیث ِ موضوع کا مضمون شریعت کے کسی عمومی اُصول اور قاعدے کے خلاف نہیں ہے، تو اُس پر فی نفسہٖ خیر ہونے کے باعث عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ وہ شریعت کے عام اُصول کے تحت داخل ہے، بلکہ حسنِ نیت کے ساتھ عمل کرنا مستحسن اور اجروثواب کا موجب ہوگا، مثلاً: افتتاحِ بخاری وختم بخاری شریف کی محافل کا اہتمام کرنا شریعت کے عام اُصول وقواعد کی رُو سے جائز ہے، لیکن اگر ختم بخاری شریف کی مجلس منعقد کرنے کی فضیلت کے حوالے سے کوئی حدیث گھڑکر نبی کریمؐ کی طرف منسوب کردی جائے اور اُس من گھڑت حدیث کی تعمیل اور اس میں بیان کردہ فضیلت کے حصول کی غرض سے ختم بخاری کی مجلس منعقد کی جائے، تو یہ ناجائز وحرام ہے۔ محدثین وفقہائے کرام نے یہ تصریحات فرمائی ہیں: ’’موضوع احادیث کو اُن کی موضوعیت کی وضاحت کیے بغیر بیان کرنایا اُن پر حدیث ِ نبوی ؐ ہونے کی حیثیت سے عمل کرنایا اِس کی ترغیب دلانا ناجائز وحرام ہے، لیکن اگر کسی موضوع روایت میں مذکور مضمون شریعت کے عام اُصول اور قواعد کیخلاف نہ ہو تو اس پر اس حیثیت سے عمل کرنا جائز ہے کہ وہ شریعت کے عمومی اُصول وقواعد کے تحت داخل ہے، لیکن حدیث ِ نبویؐ کی حیثیت سے اُس پر عمل کسی بھی حال میں جائز نہیں ہے، وہ حدیث جو موضوع نہ ہو، بلکہ ضعیف ہوتو اُس پر بھی فضائل اعمال کے باب میں چند شرائط کے ساتھ عمل کرنا جائز ہے:
(۱) اس حدیث کا کوئی راوی جھوٹا یا مُتَّہَمْ بِالْکِذْب نہ ہو، (۲) حدیث کسی نہ کسی شرعی اُصول اور قاعدے کے تحت داخل ہو، (۳) نبی کریمؐ سے یقینی طور پر اُس روایت کے ثابت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے اور اُسے سنت کا درجہ نہ دیاجائے اور جب اُسے سند کے بغیر بیان کیا جائے تو ازراہِ احتیاط تمریض کے صیغے (یعنی جس سے روایت کا کمزور ہونا ظاہر ہوتا ہو) کے ساتھ یوں کہا جائے: ’’روایت بیان کی گئی ہے‘‘ یا ’’نقل کیا گیا ہے‘‘ یا ’’نبی کریمؐ کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے‘‘، وغیرہا، جزم اور یقین کے ساتھ یوں نہ کہا جائے: ’’نبی کریمؐ نے فرمایا‘‘ یا ’’آپؐ نے یہ حکم دیا ہے‘‘ یا ’’نبی کریمؐ نے یہ فعل کیا‘‘ وغیرہ۔
علامہ علا الدین حصکفی حنفی لکھتے ہیں:
’’ضعیف حدیث پر عمل کرنے کی (ایک) شرط تو یہ ہے کہ اُس کا ضُعف سخت قسم کا نہ ہو (یعنی اس کی سند میں کَذَّابْ یا مُتَّہَمْ بِالْکِذْب راوی نہ ہو) اور (دوسری) شرط یہ ہے کہ وہ (شریعت کے کسی) عام اصل اور قاعدے کے تحت داخل ہو اور (تیسری) شرط یہ کہ اُس حدیث کی وجہ سے اس عمل کے سنت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے، رہی بات موضوع حدیث کی، تو اس پر تو کسی بھی حال میں عمل کرنا جائز نہیں ہے اور اس کے من گھڑت اور جعلی ہونے کی وضاحت کیے بغیر اُسے بیان کرنا بھی جائز نہیں ہے‘‘، (دُرِّمختار) اس کے تحت علامہ ابن عابدین شامی حنفی لکھتے ہیں:
’’(رہی بات موضوع حدیث کی) یعنی رسول اللہؐ کی طرف جھوٹ منسوب کرنا تو اس کی حرمت پر اجماع، بلکہ بعض محدثین نے اِسے کفر قرار دیا ہے، کیونکہ نبی کریمؐ نے فرمایا: جو شخص میری طرف کوئی ایسی بات منسوب کرے جو میں نے نہ کہی ہو تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے، (علامہ حصکفی کا قول: اُسے کسی بھی حال میں بھی بیان کرنا جائز نہیں ہے)، یعنی اُسے فضائل اعمال میں بیان کرنا بھی جائز نہیں ہے، لیکن یہ اُس صورت میں ہے کہ جب وہ شریعت کے قواعد کے خلاف ہو، لیکن اگر وہ شریعت کی کسی عام اصل کے تحت داخل ہے تو اُس پر عمل کی کوئی ممانعت نہیں ہے، لیکن یہ عمل اس کے حدیث ِ نبوی ہونے کی وجہ سے نہ ہو، بلکہ اس وجہ سے ہوکہ وہ شریعت کے عام قاعدے کے تحت داخل ہے، (علامہ حصکفی نے فرمایا: موضوع حدیث کو اس کے موضوع ہونے کی وضاحت کے ساتھ بیان کرنا جائز ہے) یعنی جب موضوع حدیث کے متعلق یہ بیان کردیا جائے کہ یہ جعلی اور من گھڑت ہے (تاکہ لوگ نبی کریمؐ کی طرف اس روایت کو منسوب کرنے سے اجتناب کریں)، البتہ ضعیف حدیث کو اس کا ضُعف بیان کیے بغیر بیان کرنا جائز ہے۔ لیکن خیال رہے کہ جب تم کسی ضعیف حدیث کو سند کے بغیر بیان کرنے کا ارادہ کرو تو یوں نہ کہو: ’’رسول اللہؐ نے ایسا فرمایا‘‘ اور اس کے لیے ایسے دوسرے صیغے بھی استعمال نہ کیے جائیں جو اُس روایت کے یقینی ہونے کا فائدہ دیتے ہوں، بلکہ یوں کہو: ’’اِس طرح روایت کیا گیا ہے‘‘ یا کہو: ’’ہمیں یہ روایت پہنچی ہے‘‘ یا ’’نبی کریمؐ کے حوالے سے اِس طرح وارد ہوا ہے یا آیا ہے‘‘ یا ’’آپؐ سے نقل کیا گیا ہے‘‘ اوراس کے مشابہ تَمْرِیْض کے صیغے استعمال کیے جائیں، یہی طریقہ کار اُن احادیث کے معاملے میں بھی اختیار کرنا چاہیے جن کی صحت وضُعف کا معاملہ مشکوک ہو، ’’تقریبِ نووی‘‘ میں اِسی طرح مذکور ہے‘‘۔ (رَدُّالْمُحْتَار)
امام احمد رضا قادری اپنے رسالے ’’مُنِیْرُ الْعَیْنِ فِیْ حُکْمِ تَقْبِیْلِ الْاِبْہَامَیْن‘‘ میں ضعیف حدیث کے مراتب ودرجات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’پھر درجہ ششم میں ضُعفِ قوی ووَھن (کمزوری) شدید ہے، جیسے راوی کا فسق وغیرہ قوادحِ قویہ (قوی عیوب) کے سبب متروک ہونا بشرطیکہ ہنوز سرحدِ کذب سے جُدائی ہو، اس حدیث کو احکام کے ثبوت میں دلیل بناناتو درکنار، یہ اعتبار کے بھی لائق نہیں، ہاں! فضائل میں مذہبِ راجح پر مطلقاً اور بعض کے نزدیک جب کثرتِ طُرق اور کئی حوالہ جات کے ساتھ بیان کی جائے بعد ِانجبار بتعدُّدِ مَخارج وتنوُّعِ طُرُق منصبِ قبول وعمل پاتی ہے (یعنی اگر حدیث کے مآخِذ کئی ہوں اور کئی طُرق سے مروی ہو توشدتِ ضُعف میں کمی آجاتی ہے)۔ پھر درجہ ہفتم میں مرتبہ مطروح (متروک) ہے، جس کا مدار وَاضعینِ حدیث، کذّاب یا مُتَّہَمْ بِالْکِذْبپر ہو، یہ بدترین اقسام میں ہے، بلکہ بعض محاورات کے رُو سے مطلقاً اور ایک اصطلاح پر اس کی نوعِ اشدّ، یعنی جس کا مدار کَذَّاب پر ہو، عین موضوع، یا نظرِ تدقیق میں یوں کہے کہ ان اطلاقات پر داخلِ موضوعِ حکمی ہے، ان سب کے بعد درجہ موضوع کا ہے، یہ بالاجماع نہ قابلِ انجبار (یعنی یہ کسی بھی صورت درست قرار دینے کے قابل نہیں)، فضائل وغیرہ کسی باب میں لائق ِاعتبار نہیں، بلکہ اُسے حدیث کہنا ہی توسُّع وتجوُّز (یعنی حد سے تجاوز) ہے،حقیقۃً حدیث نہیں محض مَجْعُول (خود ساختہ) وافترا ء‘‘، (فتاویٰ رضویہ) اِسی رسالے میں اٹھائیسویں افادے کے تحت لکھتے ہیں:
’’حدیث اگر موضوع بھی ہوتو پھر بھی اس سے فعل کی ممانعت لازم نہیں، میں کہتا ہوں: اچھا سب جانے دیجیے، اپنی خاطر پُورا تنزل لیجیے، بالفرض حدیث موضوع وباطل ہی ہو، تاہم حدیث کا موضوع ہونا اُس کے حدیث نہ ہونے کا سبب ہے، نہ حدیث ِ عدم (یعنی یہ مراد نہیں کہ اس مضمون پر کوئی حدیث سرے سے نہیں ہے)، اس کا اثر صرف اتنا ہوگا کہ اس بارے میں کچھ وارد نہ ہوا، نہ یہ کہ انکار ومنع وارد ہوا، اب اصل فعل کو دیکھا جائے گا،
اگر قواعدِ شرع ممانعت بتائیں، تو ممنوع ہوگا ورنہ اباحتِ اصلیہ پر رہے گا اور نیتِ حَسَن سے حَسَن ومُستحسن ہوجائے گا، حدیث کے موضوع ہونے سے فعل کیوں ممنوع ہونے لگا، موضوع خود باطل ومہمل وبے اثر ہے یا نہی وممانعت کا لازمی پروانہ، علامہ سیدی احمد طحطاوی فرماتے ہیں: ’’جس فعل کے بارے میں حدیث موضوع وارد ہو، اُسے کرنا اُسی حالت میں ممنوع ہے کہ خود وہ فعل قواعدِ شرع کے خلاف ہو اور اگر ایسا نہیں، بلکہ کسی اصل کلی کے نیچے داخل ہے تو اگرچہ حدیث موضوع ہو، فعل سے ممانعت نہیں ہوسکتی، نہ اس لیے کہ موضوع کو حدیث ٹھیرائیں، بلکہ اس لیے کہ وہ قاعدہ کلیہ کے نیچے داخل ہے‘‘، میں کہتا ہوں: سید احمد طحطاوی نے یہ علّت بیان کر کے افادہ فرمایا: مراد یہ ہے کہ موضوع حدیث میں بیان شدہ ایسا عمل جو شرعی قاعدہ کے موافق ہے، اس پر عمل کرنا جائز ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ موضوع حدیث پر عمل کرنا جائز ہے، عن قریب ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس پر تفصیلی گفتگو کریں گے، پس آپ انتظار کریں‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ)
یہ عنوان ہم نے اس لیے اختیار کیا کہ سیدالمرسلین، رحمۃٌ للعالمین، سیدنا محمد رسول اللہؐ کی عظمت وفضیلت اور آپ کی بارگاہ کے آداب قرآنِ مجید میں جا بجا بیان کیے گئے ہیں، اسی طرح صحیح احادیث میں آپ کے فضائل وخصائص اور امتیازات بیان کیے گئے ہیں، ہمیں اُن کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور مجالس ومحافل میں عوام کے سامنے یہی چیزیں بیان کرنی چاہییں، جب قرآنِ کریم اور ذخیرۂ احادیث میں صحیح اور ثابت شدہ باتیں موجود ہیں، تو موضوعات کے بیان کرنے کا کوئی جواز نہیں، کیونکہ حُسنِ عقیدت کے نام پر یہ دروازہ کھول دیا جائے تو پھر دین بازیچۂ اطفال بن جائے گا۔ عام مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ صاحبانِ علم کی مجالس میں بیٹھیں اور علم وتقویٰ کے زیور سے آراستہ طریقت کے رہنمائوں کی صحبت اختیار کریں، اللہ تعالیٰ اس کا حکم فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں کی صحبت اختیار کرو‘‘۔ (التوبہ: 119)