مَرد کا درد

610

جب ہمیں پتا چلا کہ مَردوں کا بھی ایک عالمی دن ہے اور یہ دن انیس نومبر کو منایا جاتا ہے تو ذہن میں ایک ساتھ کئی سوال اْبھرے، کیا مرد اس دن پیدا ہوئے تھے، اس تاریخ کو دریافت ہوئے تھے؟ کیا یہ نسل معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے؟ یا مرد کوئی مرض ہے جس سے آگاہی کے لیے یہ دن منایا جارہا ہے؟ ان سوالوں کا جواب تو نہیں ملا لیکن سوچا اب یہ دن منایا ہی جارہا ہے تو کیوں نہ مردوں کے بارے میں قارئین کو معلومات فراہم کردی جائیں۔
سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ مرد بطور انسان ہی پیدا ہوتے ہیں، البتہ بعد میں یہ شوہر بن جاتے ہیں۔ یہ سبزی، دال، چاول، انڈے اور گوشت کے ساتھ غم بھی کھاتے ہیں، غرض یہ کہ جو ملے کھالیتے ہیں۔ یہ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، بلکہ جہاں ان کے پائے جانے کی کوئی امید اور امکان نہ ہو وہاں بھی پائے جاتے ہیں، جیسے ’’عورت مارچ‘‘۔ مردوں کے بارے میں یہ کْلیہ بالکل غلط ہے کہ سارے مرد ایک سے ہوتے ہیں۔ جی نہیں، مردوں کی بہت سی قسمیں ہیں جیسے مرد مومن، مردِ بیمار، مردِ میداں، مردِ بحران، مردناداں۔ مرد مومن علامہ اقبال کی شاعری میں پایا جاتا ہے یا نسیم حجازی کے ناولوں میں۔ تاحال کوئی جیتا جاگتا مردِ مومن دریافت نہیں ہوسکا ہے، تاہم بعض حکم رانوں اور سیاست دانوں کو مردِمومن کہا گیا، مگر ان میں سے کوئی ’’مْردہ مومن‘‘ ثابت ہوا تو کوئی ’’دردِ مومن‘‘ میں اضافے کا باعث بنا، ان تجربات کی روشنی میں لوگ ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں ’’بس کردے مومن‘‘۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق مردوں کی یہ نسل کرہ ٔ ارض سے مٹ چکی ہے۔ ایک زمانے میں صرف ترکی کو ’’یورپ کا مردِبیمار‘‘ کہا گیا تھا، اب دیواروں پر لکھے اشتہاروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مردبیماروں کی تعداد میں دن دوگنی رات چوگنی اضافہ ہورہا ہے۔ ایک عرصے تک ہم یہ سمجھتے رہے کہ مردمیداں کا مطلب ہے وہ مرد جو میدان میں پیدا ہوا ہو، پھر ایک بزرگ نے تصحیح کی کہ مردمیداں اسے کہتے ہیں جو میدان میں خود کو مرد ثابت کرے۔ یہ سْن کر ہم منہ پر ہاتھ رکھ کر ’’آآآ‘‘ کرنے لگے تو وہ شرمندہ ہوکر بولے’’ارے بے وقوف! وہ مطلب نہیں، اس کے معنی ہیں کہ جرأت مند، بہادر، کسی میدان میں بازی جیتنے والا‘‘ پھر ہماری سمجھ میں آیا۔ جہاں تک تعلق ہے مردبحران کا اگر اس کے یہ معنی لیے جائیں کہ ’’بحران کے دوران پیدا ہونے والا مرد‘‘ تو ہمارے ملک کا ہر مرد ’’مردِبحران‘‘ کہلانے کا حق دار قرار پائے گا، کیوں کہ یہاں ہر پیدائش کے وقت ملک مشکل دور اور بحران سے گزر رہا ہوتا ہے، لیکن اس کے یہ معنی بالکل نہیں۔ مردِبحران وہ ہوتا ہے جو بحران کا مقابلہ کرے اور اس پر قابو پائے۔ بعض مرد خود بھی پورے کے پورے بحران ہوتے ہیں، جن پر قابو پاکر ہی بحران سے نجات مل سکتی ہے، اور ایسے مردوں کی تو کوئی کمی نہیں جو بچے کم بحران زیادہ پیدا کرتے ہیں آخرکار ریٹائر ہوجاتے ہیں۔ رہے مردِناداں، تو ننانوے فی صد مرد اسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں، پْرانے زمانے کے مْحَلّوں میں یہ مرد ’’میرا مرد‘‘، ’’تیرا مرد‘‘، ’’شکیلہ کا مرد‘‘، ’’جمیلہ کا مرد‘‘ کے تعارف سے پہچانا جاتا تھا، اب اسے ذرا عزت مل گئی ہے۔ بہ قول علامہ اقبال ’’مردِناداں پر کلامِ نرم ونازک بے اثر‘‘ اس لیے اسے سخت اور کرخت کلام سے سْدھارا اور سدھایا جاتا ہے۔ کچھ گھروں میں تو مصرعہ تبدیل کرتے ہوئے مردِناداں پر ’’چماٹِ‘‘ نرم ونازک بے اثر پڑھا اور پڑھا ہی نہیں دست وبازو کی پوری قوت سے اس پیغام پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔
ہم واضح کردیں کہ مرد نامی ’’مخلوق‘‘ اپنا رنگ ہی نہیں قِسم بدلنے پر بھی قدرت رکھتی ہے، حالات اور مجبوریاں بھی اس کی قسم تبدیل کرنے کا باعث ہوسکتی ہیں۔ اب جیسے مردِمیداں کو میدان چھوڑنا ہو تو اسے مردِبیمار کی قسم میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ یوں تو مَردوں پر بے وفائی، بے ڈھنگے پن، بدنظری، بدکلامی سمیت کتنے ہی الزامات ہیں، لیکن اس مخلوق کو سب سے زیادہ رْسوا حکیموں نے کیا ہے۔ حکیموں نے اپنے اشتہارات سے دیواریں کم سیاہ کی ہیں مردوں کے منہ پر کالک زیادہ ملی ہے۔ اس قدر بدنام کیا ہے کہ کسی مرد کا کردار مضبوط ہو تو اسے بھی مردانہ کم زوری سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی مرد دائمی قبض کے علاج کے لیے بھی حکیم کے پاس جائے تو یوں چھپتے چھپاتے جاتا ہے جیسے سیاسی کم زوری کے شکار پاکستانی سیاست داں مسیحائی کے لیے مسلح افواج کی ’’ہائی کمان‘‘ سے ملتے ہیں۔
مردوں کے بارے میں بہت سے اقوال مشہور ہیں، مثلاً مرد کو درد نہیں ہوتا، تحقیق سے دل چسپی رکھنے والی خواتین اس قول کی حقیقت جاننے کے لیے بیلن، چمٹے، برتنوں اور گلاسوں کا استعمال کرتی ہیں، اور اگر یہ بات سچ ثابت ہو تو یہ استعمال ترک کردیا جاتا ہے۔ یہ بھی مشہور ہے کہ ہر کام یاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، تاہم یہ عْقدہ نہیں کْھل سکا کہ یہ ہاتھ تھپکی دیتے ہیں یا دوہتڑ لگاتے ہیں۔ مرد کی کام یابی کا راز تو معلوم ہوا، لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ناکام مرد کے پیچھے کس کا ہاتھ ہوتا ہے؟ البتہ اْڑتی اْڑتی سْنی ہے کہ ناکام مرد کے پیچھے اکیلا ہاتھ نہیں ہوتا۔
دنیا میں جانوروں تک کے حقوق کی تنظیمیں ہیں، لیکن مرد نامی جان دار کے حقوق کا کوئی نام لیوا نہیں۔ حقوق تو کجا اس کے مسائل اور شکایات پر بھی کوئی بات نہیں ہوتی۔ آج تک کسی نے نہیں کہا کہ بھیا! کسی خاتون کا شوہر فوت ہوجائے تو اسے بیوہ جیسا خوب صورت نام دیا جاتا ہے، اتنا خوب صورت کہ دل میں بیوہ ہونے کی آرزو جاگ اٹھے، اور یہی سانحہ مردوں پر گزرے تو انہیں ’’رنڈوا‘‘ جیسے مکروہ نام سے پکارا جاتا ہے، سو ہر مرد یہی دعا کرتا ہے کہ ’’موہے رنڈوا نہ کیجو‘‘۔
کوئی ایک ستم ہو تو بیان کیا جائے، پاکستان سمیت زیادہ تر ممالک میں خواتین ماں بننے والی ہوں تو انہیں فوراً دفاتر سے چھٹی مل جاتی ہے، لیکن مرد باپ بننے والا ہو تو آدھے کی چھٹی بھی نہیں ملتی۔ اور یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ مرد کا کوئی میکہ نہیں ہوتا، وہ غریب جائے تو کہاں جائے۔
میرے بھائیو! مردوں کی یہ بپتا سْن کر آپ کی آنکھیں چھلک پڑی ہوں گی، لیکن آنسو ضبط کرلیجیے، ورنہ ایک آواز سْنائی دے گی، ’’ارے مرد ہوکر رو رہے ہو‘‘ اور آپ کھی کھی کھی کرتے ہوئے آنسو پونچھ لیں گے۔