سندھ ہائی کورٹ کا فوری بلدیاتی انتخابات کا حکم

1115

یہ بات صاف ہے کہ سندھ حکومت کسی بھی طور پر بلدیاتی انتخابات نہیں کرانا چاہتی۔ قانونی طور پر بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے کے 120 دن میں بلدیاتی انتخابات کرانے ہوتے ہیں، لیکن ایسا تاحال نہیں ہوسکا ہے، اور 2020ء میں بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے کے باوجود کراچی اور حیدرآباد میں انتخابات نہیں ہوسکے ہیں۔ انتخابات سے فرار کے لیے ایک جانب سندھ حکومت مسلسل پولیس کی نفری کا بہانہ بنارہی ہے اور دوسری جانب ایم کیو ایم حلقہ بندیوں اور درست مردم شماری کے نام پر وقت گزاری کررہی ہے۔ اس سے قبل انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات 24 جولائی کو کرانے کا بحالت ِ مجبوری اعلان کیا گیا تھا، تاہم صوبے بھر میں سیلابی صورت ِ حال کا بہانہ بنا کر پولیس کی نفری نہ ہونے پر سیکورٹی فراہم کرنے سے معذرت کرلی گئی تھی۔ جس کے بعد 28 اگست کی تاریخ رکھی گئی، لیکن اس تاریخ سے چند دن قبل پھر ایک اور تاریخ 23 اکتوبر رکھ دی گئی تھی، مگر تیسری مرتبہ بھی انتخابات ملتوی کردیے گئے۔ سندھ حکومت اور اْس کے اتحادیوں کا یہ طرزِعمل بتاتا ہے کہ وہ انتخابات کو کسی بھی حالت میں ملتوی کرنا چاہتے ہیں جس کا کوئی قانونی جواز بھی نہیں بنتا۔ اس سے قبل الیکشن کمیشن کے اجلاس میں سندھ حکومت نے بلدیاتی انتخابات کے التوا کے حوالے سے تمام دلائل ایسے دیے تھے جو کہ نہ قانوناً درست تھے اور نہ ان کا حقائق سے کوئی تعلق تھا، لیکن جھوٹ کی بنیاد پر سندھ حکومت مستقل ٹال مٹول اور فرار کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے، ایسے میں اب ایک بار پھر سندھ ہائی کورٹ نے کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کو 60 دن کے اندر کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ الیکشن کمیشن 15 دن میں پولنگ کی تاریخ کا اعلان کرے۔ اب فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہے، لیکن اب تک کا تاثر یہی ہے کہ وفاق، الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے ہی سندھ میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات تاحال نہیں ہوسکے ہیں، کیونکہ اس سے قبل وفاق نے رینجرز فراہم کرنے سے انکار کردیا تھا اور سندھ حکومت نے بھی سیکورٹی کی عدم دستیابی کا جواز بناکر بلدیاتی انتخابات کرانے سے معذرت کرلی تھی، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے سندھ بلدیاتی انتخابات کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور منگل کو فیصلہ سنانے کا کہتے ہوئے کہا تھا کہ بلدیاتی انتخابات سے متعلق مناسب فیصلہ دیں گے۔ اب معلوم نہیں مناسب فیصلہ کیا ہوتا ہے، اور وہ عدالت کے کہے کے مطابق ہوتا ہے یا نہیں! کیونکہ عدالت نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ وہ حکم نہیں دے سکتی۔ اس ساری صورت ِ حال میں اگر نقصان کسی کا ہورہا ہے تو وہ کراچی کے شہریوں کا ہورہا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر اذیت کا شکار ہورہے ہیں۔ بلدیاتی نظام اس شہر کی سیاسی، سماجی اور معاشرتی ضرورت ہے، کیونکہ یہ ایسا نظام ہے جس سے ایک عام آدمی کا براہِ راست تعلق ہوتا ہے، اور یہ عوام کو ریلیف دینے کا فوری اور مضبوط ذریعہ ہے۔ اس نظام میں عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب خود کرتے ہیں اور روز مرہ کے چھوٹے بڑے معالات کا حل آسان ہوتا ہے۔ لیکن سندھ حکومت صرف اور صرف اپنے مالی مفادات کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریزاں ہے۔ اور اس ضمن میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ ’’جماعت اسلامی نے گائوں اور دیہات کی سطح پر سیلاب زدگان کی امداد کے لیے کیمپ اور خیمہ بستیاں قائم کیں اور ہر ممکن طریقے سے سیلاب زدگان کی امداد کررہے ہیں، لیکن سندھ حکومت نے جو رپورٹ پیش کی وہ غلط بیانی پر مشتمل تھی، اس کے باوجود سندھ حکومت اس بات پر قائم ہے کہ الیکشن کو مزید تین ماہ کے لیے ملتوی کیا جائے۔ صاف و شفاف انتخابات کے لیے ضروری ہے کہ شہر کے ناجائز سیاسی ایڈمنسٹریٹر کو برطرف کیا جائے۔ پہلے جو سڑکیں بنائی جاتی تھیں وہ بارش سے ٹوٹ جاتی تھیں، اور اب جو بنائی جارہی ہیں وہ بارش کے بغیر بھی ٹوٹ رہی ہیں، کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کیے جارہے ہیں‘‘۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن کراچی اور حیدرآباد میں فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان کرے اور سندھ حکومت کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے انتظامات کرے۔