پاکستانی سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ٹیکنالوجی

572

بہت سے ناقدین کہتے ہیں کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور پاکستان میں سڑک، گٹر، پانی، سیاسی جھگڑے، چور ڈاکو کے نعرے اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ہی چل رہی ہے لیکن ایک بات ایسی ہے جو دنیا میں کسی اور ملک میں شاید نہیں ملے گی اور وہ سافٹ ویئر کے حوالے سے پاکستان کی بالادستی ہے۔ پاکستان کے اصل حکمرانوں کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ بڑے سے بڑا ضدی سافٹ ویئر بھی باآسانی تبدیل کر دیتے ہیں جسے سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کرنا کہا جاتا ہے۔ یہ سافٹ ویئر عموماً سیاسی رہنمائوں، حکمرانوں اور اپوزیشن کے رہنمائوں کے اپ ڈیٹ ہوتے ہیں عدالتوں، ایف آئی اے، نیب وغیرہ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے اور صحافیوں کے سافٹ ویئر بھی اپ ڈیٹ ہوتے ہیں۔ جی ہاں اسے عرف عام میں سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کرنا کہتے ہیں جسے عمران خان یوٹرن مسلم لیگ والے سیاست اور پیپلزپارٹی والے کامیاب حکمت عملی قرار دے کر خوب خوب استعمال کرتے ہیں۔ سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کے حوالے سے اس قدر کامیاب ریکارڈ رکھنے والے پاکستانی ادارے ہیں ان کو بین الاقوامی دفاعی نمائش میں بھی اپنا اسٹال لگانا چاہیے تھا۔ کیونکہ زندگی کے ہر شعبے میں انہوں نے سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ بہرحال پاکستان میں سیاسی رہنمائوں، حکمرانوں، سابق حکمرانوں وغیرہ کے سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہونے کے واقعات بہت مشہور ہیں۔ آج کل تازہ ترین سابق وزیراعظم عمران خان کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہو رہا ہے۔ اس کی رفتار اتنی تیز ہے کہ اس رفتار سے خود انہوں نے کرکٹ میں بھی گیندیں نہیں کی ہو گی۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند روز قبل تک وہ ایک لانگ مارچ کی قیادت کر رہے تھے اور ان کا مطالبہ تھا فوری انتخابات۔ لیکن اچانک وزیرآباد کے قریب لانگ مارچ میں ایک واقعہ پیش آیا، فائرنگ ہوگئی۔ اس فائرنگ کی خبر شروع سے اب تک کئی جہتوں میں چل رہی ہے۔ حملہ آور ایک تھا۔ حملہ آور کئی تھے۔ گولی نیچے سے اوپر چلائی گئی۔ گولی اوپر کہیں سے چلائی گئی۔ ایک گولی لگی دو گولیاں لگیں چار گولیاں لگیں۔ دونوں ٹانگوں میں لگیں ایک ٹانگ پر لگی۔ گولیاں نہیں گولیوں کے ٹکڑے لگے۔
ان تمام خبروں پر یقین کرنا پڑے گا۔ ورنہ یقین نہ کرنے والے کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہو جائے گا یا وہ ایکسپائری ڈیٹ کو پہنچ جائے گا۔ چنانچہ ہم نے بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح سب خبروں پر یقین کر لیا لیکن اس جانب سوچنا چھوڑ دیا کیونکہ اس سے ہمارا ہارڈ ویئر بھی خراب ہونے لگا تھا۔ یہاں سے سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہونا شروع ہوتا ہے۔ خان صاحب پہلے مرحلے میں خود لانگ مارچ میں نہ آنے کا پھر آنے کا اعلان کرتے ہیں۔ پھر شاہ محمود قریشی کی قیادت میں لانگ مارچ شروع ہوتا ہے لیکن سافٹ ویئر میں تبدیلی کے نتیجے میں لانگ مارچ کا مطالبہ فوری انتخاب کے بجائے وزیراعظم، وزیرداخلہ اور میجر جنرل فیصل کے خلاف ایف آئی آر کی طرف منتقل ہو گیا۔ لیکن 11 نومبر کے اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ میری حکومت الیکشن نہیں آکشن کے ذریعے ہٹائی گئی سائفر اور امریکی سازش کا ذکر گول… لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ سائفر اب ماضی کا قصہ ہو گیا۔ یعنی جس سائفر کی بنیاد پر ملک بھر میں طوفان اٹھایا تھا وہ ماضی کا قصہ ہو گیا لیکن لانگ مارچ اسی بنیاد پر نکالا گیا فوج اور اداروں کو اسی بنیاد پر برا بھلا کہا گیا اور اب وہ ماضی ہو گیا۔ یہی نہیں سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ابھی صدر مملکت کی جانب سے امریکا سمیت تمام ممالک سے اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا کہ اگلے ہی روز عمران خان نے بھی کہہ دیا کہ تمام ممالک بالخصوص امریکا سے اچھے تعلقات چاہتا ہوں۔ پھر 6 ماہ سے امریکا سے حقیقی آزادی کا بیانیہ حقیقی آزادی لانگ مارچ فوری الیکشن سے، تین لوگوں کے استعفے اور ایف آئی آر میں شام تک جاری رہنے کا اعلان اور پھر الیکشن ایک سال بعد بھی ہو جائیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ کیا سافٹ ویئر اتنا ہی اپ ڈیٹ ہونا تھا؟؟ نہیں بلکہ سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ٹیکنالوجی اتنی تیز ہے کہ جناب نے جس فوج کے خلاف 6 مال سے ٹی ٹی پی اور بھارتی فوج سے بھی بڑے محاذ کھول رکھے تھے اس کے بارے میں کہا کہ حکومت اور فوج کے کردار میں توازن ضروری ہے۔ فوج میرے مستقبل کے منصوبوں میں ساتھ دے سکتی ہے۔ اور پھر کہا کہ فوج ہماری اپنی ہے اس کے خلاف نہیں جا سکتے۔ اب لوگ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں کہ ہم لانگ مارچ کس سے حقیقی آزادی کے لیے کر رہے تھے، سائفر کیا بلا تھی، حکومت امریکا نے گرائی یا نیوٹرلز نے… اور نیوٹرل کون ہوتا ہے یہ جاننے کے لیے اپریل سے اواخر اکتوبر تک سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہونے تک کے عمران خان کے بیانات پڑھے جا سکتے ہیں لیکن وہ تو اپنے ہو گئے ہیں اس لیے… عوام کنفیوز نہ ہوں۔ بس سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہونے سے پہلے اور بعد کے بیانات کا جائزہ لے کر فیصلہ کریں ورنہ اس غلط سافٹ ویئر کی وجہ سے کوئی لپیٹ میں آگیا تو اس کی ویڈیو جعلی اور اصلی کسی بھی طرح کی مارکیٹ میں آسکتی ہے۔ ہاں سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہونے سے ویڈیو کا بھی تعلق ہے۔ یہ بات تو خان صاحب بہت پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ میری بڑی گندی ویڈیو آنے والی ہے۔ لیکن بلا ان پر سے ٹل کر ان کے ایک ساتھی کی گردن پر آ پڑی اب یہ ہوگا کہ ان کی ویڈیو آ بھی گئی تو میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ ویڈیو لائیں گے… لیکن (باقی صفحہ07بقیہ 02)
کیا ویڈیو والے بیانات کا سافٹ ویئر بھی اپ ڈیٹ ہونے جارہا ہے۔ عمران خان صاحب کو ڈر ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت عوام کی منتخب ہو اور اختیار کسی اور کے پاس ہو۔ پھر بھی وہ چاہتے یہی ہیں کہ ’’کوئی‘‘ ان کی حکومت پھر بنوا دے… لیکن جب ’’کوئی‘‘ حکومت بنوائے گا تو اختیار بھی اپنے پاس ہی رکھے گا اسے جانور کہنے سے حقیقت تبدیل تو نہیں ہوگی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ خان صاحب کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ بھی ہوگیا اور کرپٹ بھی… کیونکہ ایک ساتھ وہ کئی قسم کی باتیں کر رہے ہیں۔ روس کا دورہ کارنامہ تھا۔ اب ندامت کا سبب بن گیا ہے۔ فوج خراب بھی ہے اپنی بھی ہے اب نئے آرمی چیف کے تقرر پر اعتراض بھی نہیں۔ امریکا سے حقیقی آزادی بھی چاہتے ہیں اور اچھے تعلقات بھی عدلیہ سے توقع باندھتے ہیں کہ ساتھ دے لیکن اس کے ان فیصلوں کو نہیں مانتے جو ان کی مرضی کے خلاف ہوں۔ تمام حکمرانوں کی عام بیماری ہے کہ اپنے دور میں کبھی میرٹ کا خیال نہیں رکھا لیکن دوسروں کے لیے میرٹ کا نام لیتے نہیں تھکتے۔ انصاف کے لیے میرٹ نہیں۔ تعلیم کے لیے نہیں پولیس میں نہیں۔ سرکاری اداروں میں نہیں۔ حکومت سازی میں نہیں لیکن آرمی چیف میرٹ پر آنا چاہیے۔ یہ سافٹ ویئر خواجہ آصف کا بھی اپ ڈیٹ ہو چکا ہے۔ آصف زرداری صاحب کا بھی اور بہت سے سیاسی رہنمائوں کا… لیکن ایک سافٹ ویئر کئی مرتبہ اپ ڈیٹ نہیں ہوتا وہ کرپٹ ہو جاتا ہے اسے پاکستان کے اور برصغیر کے سیاسی کچرے میں لندن پھینک دیا جاتا ہے۔ خان صاحب کا سافٹ ویئر بھی بڑا مضبوط یا اٹل تھا اس لیے اپ ڈیٹ ہو کر بھی بار بار ریورس ہو رہا ہے۔ خطرہ ہے کہ اسے بھی ٹریش کرنا پڑے گا۔