نرم و نازک

470

جہاں چند افراد اکٹھے ہوتے ہیں، عمران خان پر حملہ کیوں ہوا، کس نے کرایا اور اس کا مقصد کیا ہے جیسے سوالات پر گفتگو ہونا لازمی امر بن چکا ہے، عمران خان کے بیٹوں کی آمد نے اس موضوع پر ہونے والی گفتگو میں نئے رنگ بھر دیے ہیں، مسلک عمرانیہ کے پیرو کاروں کا کہنا ہے کہ جو لوگ عمران خان کے بیٹوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کررہے تھے انہیں اپنی رائے بدل لینی چاہیے کیونکہ عمران خان کے بڑے بیٹے نے اسلامی تاریخ کے مقالے پر اعلیٰ ڈگری حاصل کی ہے۔
اور ان کی آمد اس ڈگری کے سلسلے ہی میں ہے ایک بزرگ نے انکشاف کیا۔ بابا جی آپ کہنا کیا چاہتے ہیں، میں وہی کہنا چاہتا ہوں جو تم سننا پسند نہیں کرتے، بابا جی نے جواب دیا۔ یہاں پسند اور ناپسند کا معاملہ کہاں سے آگیا، نوجوان نے استفسار کیا۔ بابا جی نے جواب دیا برخوردار یہ سارا معاملہ ہی اس اعلیٰ ڈگری کا ہے۔ قاسم اپنے باپ کے زخموں کی مرہم پٹی کے لیے نہیں آیا وہ اپنے زخموں کے مداوے کے لیے مرہم لینے آیا ہے کیونکہ اس ڈگری نے اسے بہت رسوا کیا ہے، عمران خان نے اپنی انا کی تسکین کی خاطر اپنے بیٹے کو بھی معاف نہیں کیا، وہ عوام کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ ان کے بیٹے اسلام میں بہت دلچسپی لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے بڑے بیٹے قاسم نے اسلامی تاریخ میں اعلیٰ ڈگری حاصل کر کے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے، عمران خان نے جعلی ڈگری حاصل کر کے اپنے بیٹے قاسم کو بھیج دی جب تک عمران خان وزیر اعظم رہے اس ڈگری کے بارے میں کسی نے کچھ نہ کہا مگر جب وہ ایوان اقتدار سے باہر آئے تو اندر کی باتیں بھی باہر آگئیں اور لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ قاسم کی اعلیٰ ڈگری ردی کا ایک ٹکڑا ہے جس نے قاسم کو بہت رسوا کیا اور دلبرداشتہ ہوگیا، قاسم عمران خان سے یہی کہنے آیا ہے کہ بابا جانی بہت ہو چکا آپ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ہمیں استعمال نہ کریں، اپنی سیاسی بساط کا مہرہ نا بنائیں، آپ کی سیاسی بساط نے ہمیں بساطی بنا دیا ہے، حالانکہ ہم خاندانی طور پر ایک معروف اور نامور تجارتی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
یادش بخیر عمران خان کہا کرتے تھے کہ ان کا بڑا بیٹا قاسم ان کی سیاست سے ناخوش ہے، وہ ہمیشہ کہا کرتا ہے کہ سیاست چھوڑ دو، کیونکہ ان کی سماجی خدمات ہی باعث ِ صد افتخار ہیں، سیاست نام و نامود کے لیے کی جاتی ہے اور سماجی خدمت انسان کی فلاح و بہبود کے لیے کی جاتی ہے، کسی بھی فرد اور اس کے خاندان کے لیے اس سے بڑی کوئی اور نیک نامی نہیں ہو سکتی کہ انسانوں کی بہتری اور خوشحالی کے لیے کام کیا جبکہ سیاست اپنی پارٹی اور اپنے اتحادیوں کو خوش کرنے کا نام ہے اور یہ نام کمانے کا بدترین ذریعہ ہے، مگر عمران خان نے کبھی اس کی بات پر توجہ ہی نہیں دی، انہوں نے اپنے بیٹے قاسم خان کو یہ باور کرانے کی بہت کوشش کی کہ ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے سیاست ہی ایک اعلیٰ اور و ارفع مشن ہے، اس کے بغیر خاص کر پاکستان میں کوئی اور شعبہ معتبر نہیں اور ایک پاکستانی کی حیثیت سے ان کے لیے سیاست ہی باعث اعزاز ہے یہ ٹھیک ہے کھلاڑی ہونے کی حیثیت سے بھی انہوں نے بہت نام کمایا لوگوں نے انہیں بہت عزت دی مگر سیاستدان ہونے کے ناتے جو عزت و احترام انہیں ملا ہے وہ بے مثال ہے پہلے لوگ ان کی عزت کیا کرتے تھے اور اب ان کے عقیدت مند ہیں مگر تم ابھی یہ بات نہیں سمجھ سکتے کہ عزت اور عقیدت میں کیا فرق ہوتا ہے، عزت تو ہر نامور اور مقبول آدمی کی ہوتی ہے مگر جو بات عقیدت میں ہے اس کا جواب ہی نہیں، آپ اپنے عقیدت مند سے کچھ بھی کراسکتے ہیں اور وہ آپ کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے، کیونکہ وہ آپ کی ہر ہدایت کو حکم سمجھ کر اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے آپ اس کے مذہبی جذبات سے کھیل سکتے ہیں، اس کے مذہبی عقائد کو روند سکتے ہیں، مگر وہ کچھ نہیں سمجھے گا، بس آپ کی ہدایات ہی اس کے لیے سب کچھ ہوتی ہیں۔
بابا جانی یہی سوچ سلمان رشدی کی بھی تھی…؟ اب وہ منہ چھپائے دردر کی خاک چھان رہا ہے، ایک آنکھ اور ایک ٹانگ سے محروم ہو چکا ہے گویا وہ آدھا مر چکا ہے خوف کا یہ عالم ہے کہ ہوا کے جھونکے سے بھی سہم جاتا ہے، سماجی خدمات کے ذریعے ہی سے انسانیت کی خدمت کی جاسکتی ہے، یہ ٹھیک ہے کہ انسانی خدمات کے دیگر ذرائع بھی ہیں مگر ان میں اولیت اپنی ذات کو دی جاتی ہے، اس بات سے انکار ممکن ہی نہیں کہ انسانیت کی خدمت میں انسان کی فلاح و بہبود کو فوقیت دی جاتی ہے۔ شنید ہے قاسم نے اپنے والد محترم کو انسانی خدمت کو اولیت دینے پر قائل تو کر لیا ہے، مگر اس کے جانے کے بعد کیا ہوگا، یقینی سارا جنگل رقص میں ہوگا اورہر طرف یہی شور مچا ہوگا کہ۔
سر پہ مستوں کی طرح جھوم کر بادل آئے
مفتی ٔ وقت کا تقاضا ہے کہ بوتل آئے
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر جن بوتل سے باہر آگیا تو تحریک انصاف کا کیا بنے گا؟