ریاست کمزور کب ہوتی ہے

525

پاکستان میں اس غلط فہمی کو بہت زیادہ عام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ فوج کو برا مت کہو کیونکہ اس سے ملک یا باالفاظِ دیگر ریاست کمزور ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عسکری ادارے جو ضامن ہوتے ہیں ملک کی سرحدوں کی محافظت کے، اگر ان کو ہدفِ تنقید بنایا جائے گا اور ان کی کمزوریوں کو مسلسل دہرایا جائے گا تو دنیا بھر میں ان کی ساکھ بہت بری طرح متاثر ہوگی اور جو بھی ملک دشمن عناصر یا ممالک ہوں گے اس کا بھر پور فائدہ اٹھائیں گے، جس کا نتیجہ کسی بھی بہت بڑے سانحے کی صورت میں سامنے آنے کا احتمال بڑھتا چلا جائے گا لیکن مجھے عسکری اداروں کی ساکھ سے ہزار گنا زیادہ حکومتی ساکھ اہم نظر آتی ہے۔ یہاں میں ایک بات بہت اچھے طریقے سے واضح کر دوں کہ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ ریاست پر کس کی حکومت ہونی چاہیے۔ حکومت سویلین کر رہے ہیں یا فوجی، حکمران صدر، وزیرِ اعظم، خلیفہ یا بادشاہ کہلائے جاتے ہیں یا مطلق العنان ڈکٹیٹر، میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ کسی بھی ملک میں اگر ’’حکومتیں‘‘ کمزور اور اس کے حکمران دھوتیوں، پتلونوں، شلواروں یا لاچوں کے طرح بار باربدلی، ٹوٹتی، توڑی جاتی یا جلدی جلدی تبدیل ہوتی یا کی جاتی رہیں گی تو نہ تو طاقتور ترین ادارے مضبوط اور نہ ہی مملکتیں سلامت رہیں گی خواہ کسی بھی ملک کی فوج چٹانوں سے زیادہ مضبوط اور آہن و فولاد سے زیادہ پائیدار ہی کیوں نہ ہو۔
کسی بھی خطے کو ریاست کہلانے کے لیے تین عناصر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک یہ تین عناصر موجود اور یک جا نہیں ہوں گے، کوئی خطہ زمین ریاست کہلا ہی نہیں سکتا۔ پہلا عنصر خاطر خواہ خطہ زمین، دوسرا خاطر خواہ آبادی کا ہونا اور تیسرا حکومت کا پایا جانا۔ جب بھی اور جہاں بھی یہ تین عناصر ایک صفحے پر آجاتے ہیں وہ خطہ زمین ایک ریاست کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ باقی جتنے بھی محکمے اور ادارے ہوتے ہیں ان کا وجود ریاست کی تشکیل پانے کے بعد جنم لیتا ہے۔ مثال کے طور پر کشمیر ایک خطہ زمین کا حامل بھی ہے اور اس میں پائے جانے والے کشمیری بھی اتنی کثیر تعداد میں ہیں جو ریاست کے لیے ضروری ہوتے ہیں لیکن کیونکہ اس خطے میں ان کی حکومت نہیں ہے اس لیے دنیا اس کو کسی صورت ملک ماننے کے لیے تیار نہیں۔ 1947 سے پہلے بھی جن خطوں میں آج بھی مسلمان آباد ہیں وہ اسی طرح آباد تھے۔ ان کے پاس وسیع خطہ زمین بھی تھا، کروڑوں کی آبادی بھی تھی لیکن کہیں سے کہیں تک پاکستان کا وجود نہیں تھا لیکن جونہی ان خطوں میں حقِ حکمرانی بھی ان کے حصے میں آیا تو وہ خطہ ’’ریاستِ پاکستان‘‘ کے نام سے دنیا میں ایک نئے ملک کی صورت مانا اور پہچانا گیا۔ کیا جب پاکستان وجود میں آیا اس وقت پاکستان میں موجود تمام ادارے اور محکمے موجود تھے؟۔
ملک میں فوجی حکمران بھی آتے رہے اور سول حکمران بھی لیکن کیا دونوں نے آتے ہی فوری طور پر باقائدہ ’’حکومت” بنانے کا اعلان نہیں کیا؟۔ ملک میں جب جب بھی مارشل لا لگایا گیا، راتوں رات حکومت تشکیل دی گئی جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حکومت کے بغیر کوئی بھی ریاست مکمل نہیں ہوا کرتی۔
دنیا بھر میں کئی طرح کے نظام ہائے حکومت رائج ہیں۔ سخت قسم کی ڈکٹیٹر شپ بھی ہے، جمہوریت بھی ہے، باد شاہت بھی ہے، کثیر الجماعتی نظام بھی اور یک پارٹی حکمرانی بھی، یہ سارے نظام اس بات کے غماز ہیں کہ جس ملک نے جو بھی طرزِ حکمرانی اپنایا ہوا ہے وہ وہاں کے عوام کی فطرت کے مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اپنے طرزِ حکمرانی میں عوام الناس ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں لیکن بد قسمتی سے مسلمانوں نے اس طرزِ حکمرانی کو چھوڑ دیا ہے جو ان کے رب نے ان کے لیے پسند کیا ہے۔ کہیں مرضی، کہیں مغریبیت، کہیں کثیر الجماعتی جمہوریت، کہیں یک جماعتی حکمرانی کی کوششیں اور کہیں بادشاہوں کی چاہتوں کو اپنانے کی نقالیوں نے ان کو نہ تین میں رہنے کے قابل چھوڑا اور نہ ہی تیرہ میں بلکہ وہ اس جانور کی طرح ہو گئے جس کو عامیانہ زبان میں ’’نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ کہا جاتا ہے۔
اب مجھے کوئی یہ بتائے کہ جن ممالک میں جمہوریتیں ہیں، آمریتیں ہیں، باد شاہتیں ہیں، یک جماعتی نظام ہے یا صدارتی احکامات چلائے جاتے ہیں، اگر ان سب ممالک میں نیپیوں کی طرح حکومتیں بدلی جاتی رہیں تو کیا چین، روس، امریکا اور عرب ممالک اپنے اپنے وجود کی ساری اکائیوں کو یکجا رکھ سکیں گے۔ کیا ان کی طاقتور عسکری قوتیں اپنے وجود کو منفی در منفی نہیں کرتی جائیں گی۔ کیا امریکا کی 50 سے زیادہ ریاستیں اسی طرح متحد رہ سکیں گی، کیا بھارت، انگلینڈ، چین اور روس اپنے اپنے علاقوں کو سنبھال کر رکھنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
دور نہیں جاتے۔ چند سال قبل سوویت یونین کہلانے والا ملک ’’روس‘‘ کیسے بن گیا، کیا اس کی افواج اپنی طاقت کھو چکی تھیں۔ مشرقی پاکستان ٹھیک اس وقت ہاتھ سے کیسے نکل گیا جب پورے پاکستان میں کوئی ایک زبان بھی افواجِ پاکستان کے خلاف نہیں بولا کرتی تھی۔ یہ سب اس بات کی دلالت کرتی ہیں کہ فوج کبھی کمزور نہیں ہوتی خواہ وہ سخت تنقید کی زد میں ہی کیوں نہ ہو اور کسی بھی ملک کی فوج کبھی مضبوط نہیں رہ سکتی جب عوام اس کے ساتھ نہ ہوں یا حکومتیں مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوجائیں۔ سوویت یونین کا بکھر جانا ہو یا پاکستان کا ٹوٹ جانا، ان دونوں کی ایک ہی کہانی ہے اور یہ کہانی اسی طرح قیامت تک چلتی رہے گی یعنی جب تک حکومتیں عدم استحکام کا شکار ہوتی رہیں گی تو تسبیح کے دانوں کی مانند بکھرتی رہیں گی اور مستحکم رہیں گی تو ان کی افواج اپنے اپنے ممالک ہی میں نہیں، دنیا کے ہر پسماندہ ملک پر حکمرانی کے علم گاڑتی رہیں گی۔ فوج کو مضبوط بنانا ہے تو لازمی ہے کہ نہ صرف عوام بلکہ فوج حکومتوں کو مضبوط سے مضبوط تر بنائے ورنہ نہ ریاست رہے گی اور نہ فوج، سب کو پورس کی فوج کی طرح اپنے ہی ہاتھی کچل کر رکھ دیں گے۔