نظام انصاف: قاتل اور مقتول

458

یہ ابہام تو اب شاید دور ہوجانا چاہیے کہ اس ملک میں انصاف کا نظام غیر جانبدار، شفاف، سیاست اور اندرونی بیرونی دبائو سے آزاد ہے جس کی واضح مثال چند روز پہلے ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز کی بریت ہے جس کے فوری بعد وہ لندن روانہ ہوگئیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت مریم نواز کو سزا یافتہ قرار د یتی ہے تو دوسری عدالتیں ان کو ضمانتیں اور پھر اُسی کیس میں با عزت بری قرار دے دیتی ہیں۔ ہمارے عدالتی فیصلوں میں اطمینان کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا، جہاں ملزم روسٹرم پر کھڑے ہوکر کہے کہ پراپرٹیز ہماری ہیں لیکن پھر ثابت پراسیکیوشن ہی کو کرنا ہے تو پھر فیصلہ کیا آسکتا ہے۔ ملک میں جس طرح عدالتوں کے فیصلوں کی دھجیاں اُڑائی جاتی رہی ہیں وہ خود ملک کے نظام انصاف پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
نظام انصاف کی آنکھوں میں ہمیشہ دھول جھونکی گئی عدالتی نظام کو دھوکے دیے گئے ہر دور میں نظام انصاف کو مضبوط بااختیار غیر جانبدار شفاف بنانے کے بلند بانگ دعوے کیے گئے مگر بد قسمتی سے نظام انصاف کبھی مضبوط نہیں ہوسکا، جس کی قصور وار ملک کی تمام تر سیاسی جماعتیں اور بااثر ادارے ہیں ساتھ ہی نظام انصاف کی عدالتیں بھی اس کی قصوروار ہیں جو اپنے فیصلوں پر عمل کرانے سے قاصر رہی ہیں۔ کراچی شہر کے نظام کو درست بنانے کے لیے کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس عدالت عظمیٰ سماعت کرتے رہے کہ کسی طرح کراچی شہر کے نظام کو درست بنایا جائے صوبائی حکومت کو ان کی ذمے داریوں کا احساس دلایا جائے، پولیس نظام کو بہتر بنایا جائے، غیر قانونی تعمیرات، منشیات، جرائم سمیت مختلف واقعات کو روکا جائے۔ پینے کے صاف پانی، سیوریج کے نظام کو بہتر بنایا جائے مگر بد قسمتی سے سندھ حکومت اور اس کے ماتحت ادارے فیصلوں کی آج بھی دھجیا ں اُڑا رہے ہیں کوئی ایسا طاقتوار ادارہ نہیں جو ان کی بد انتظامی کو لگام ڈال سکے۔ یہ نظام انصاف پر سوالیہ نشان ہے۔ دوسری جانب چند سال پہلے سابق وزیر اعظم جن کو عدالت عظمیٰ نے نااہل قرار دیا مگر موصوف آٹھ ماہ جیل کاٹ کر بیماری کو وجہ نجات بناتے ہوئے ضمانت پر علاج کے لیے لندن روانہ ہوئے مگر چار سال گزر جانے کے باوجود آج تک واپس نہیں آئے اور ان کی ضمانت دینے والے اس وقت کے وزیر اعظم ہیں جن سے آج تک نظام انصاف نے یہ پوچھنے کی بھی زحمت نہیں کی کہ جس مجرم کی آپ نے دو ماہ کی ضمانت لی تھی وہ چار سال گزار جانے کہ باوجود کہاں ہے۔
لاپتا افراد پر کئی بار عدالتوں میں سماعت ہوئی کئی بار وفاق اور صوبائی حکومتوں کو بازیابی کے احکامات جاری کیے گئے محکمہ پولیس کے اعلیٰ افسران کی سرزنش کی گئی مگر عدالتی فیصلوں کا کسی بھی حکومت یا اداروں پر کوئی اثر نہیں ہوا آج بھی لوگ اپنے پیاروں کے منتظر ہیں۔ اسی طرح ملک بھر میں منشیات کی روک تھام جرائم پر قابو پانے کے لیے عدالتوں سے احکامات جاری کیے گئے مگر آج نوجوان نسل منشیات اور جرائم میں ڈوبتی چلی جارہی ہے جس پر قابو پانے والا کوئی نہیں، بچوں کے اغواء ننھی پریوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ جوان لڑکیاں اغواء ہورہی ہیں مگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان مسائل پر قابو پانے میں مکمل ناکام ہیں، کوئی ایسا نہیں جو ان نالائقوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرسکے، جنہوں نے قانون انصاف کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھا ہوا ہے فیصلوں میں نرمی لمبی لمبی تاریخیں فوری ضمانتیں اور پھر ان ضمانتوں میں لمبی لمبی توسیع اور پھر اچانک بری، سیاستدانوں اور باا ثر اشرافیہ کی شان بن گیا ہے چند ماہ پہلے جو لوگ عدالتوں میں ملزم کی حیثیت سے پیش ہورہے تھے، جن پر فرد جرم عائد ہونے جارہی ہو اور پھر اچانک ان کے ہاتھوں میں ۲۲ کروڑ سے زائد عوام کا مستقبل اور ملک کی سلامتی کی بھاگ ڈور سونپ دی جائے اس سے بڑا مذاق کیا ہوگا۔
آزاد عدلیہ مضبوط قانون غیر جانبدار شفاف انصاف عدلیہ کے فیصلوں کی پاسداری ان تمام دعوئوں کا سیاستدانوں سے کوئی تعلق نہیں کیوں کہ کوئی بھی جماعت آزاد نظام انصاف کے ماتحت کام کرنے کو تیار نہیں فیصلہ حق میں آئے تو آزاد عدلیہ کا فیصلہ اور اگر فیصلہ خلاف آجائے تو فیصلوں اور ججوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے ان تمام سیاسی جماعتوں کی آزاد عدلیہ کے حوالے سے خواہش کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ لہٰذا ملک کی عدالتوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ آیا وہ کس جانب گامزن ہیں کسی بھی ملک کی عدالتیں عوام کے لیے ماں کی حیثیت رکھتی ہیں عوام کو یقین ہوتا ہے کہ وہ سگے سوتیلے کا فرق دفن کرکے اس کو شفاف غیر جانبدار انصاف مہیا کررہے گی ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کے نظام انصاف کو بھی امیر غریب، کمزور طاقتور، سیاستدان عوام کے فرق کو دفن کرتے ہوئے شفاف انصاف کی فراہمی کو ممکن بنانے کی جدوجہد کرنا ہوگی۔ عدالتوں کو اپنی ساکھ کو سازشی عناصر سے محفوظ رکھنا ہوگا۔ عدالتوں کی آنکھوں میں کئی بار دھول جھونکی گئی ہے ٹھوس شواہد کے باجود آج گناہ گار کرپٹ آزادی سے گھوم رہا ہے جو نظام انصاف کو منہ چڑا رہا ہے نظام انصاف کو قاتل اور مقتول میں فرق واضح کرنا ہوگا۔