متنازع بل اور جماعت اسلامی

518

اے ابن آدم قیامت کی نشانیاں تیزی سے نظر آرہی ہیں۔ ہمارے اسلامی ملک اور اسلامی معاشرے میں ٹرانس جینڈر بل کا منظور ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ہم کل بھی اور آج بھی مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں، پوری سینیٹ میں صرف ایک جماعت اسلامی ہے جس کے واحد سینیٹر مشتاق احمد نے اس متنازع بل کی مخالفت کی بلکہ اس کی شقوں میں ترمیم کرنے کی بات کی۔ جبکہ ایوان میں جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اہلحدیث کے ارکان اور سینیٹرز بھی موجود ہیں سوائے روزنامہ جسارت کے کوئی اخبار بھی اس متنازع بل پر لب کشائی کرنے کو تیار نہیں۔ ایسا لگتا ہے سب نے اپنا ضمیر فروخت کردیا ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا پر جو ردعمل اس ایکٹ کے خلاف آرہا ہے جو فوری توجہ طلب ہے، اس لیے ان کی یہ دلیل کہ ترمیمی ایکٹ کو خواجہ سرائوں کے بنیادی حقوق، معاشرے کی ان سے بدسلوکی اور ان کی محرومیوں کی آڑ میں ہم جنس پرستی کا قانونی دروازہ کھول دیا ہے جو احکام الٰہی اور قرآنی تعلیمات سے متصادم ہے۔ یہ آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ابن آدم کہتا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی اس بل کے خلاف ازخود نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس بل کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی تضاد نظر آرہا ہے، سوشل میڈیا پر ترمیمی ایکٹ کی جو تشریح کی جارہی ہے اس کے مطابق تو بظاہر یہ ترمیمی ایکٹ خواجہ سرائوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی جنسی پہچان کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے مگر جو بل منظور ہوا ہے وہ اس کے برعکس ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا ابھی کچھ دن پہلے پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر بن گئی اس کو خوب پروموٹ کیا جارہا تھا۔ سر آنکھوں پر بٹھایا جارہا تھا۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی طوفان آگیا ہو۔ صرف ایک یہی خبر ہر طرف تیزی سے پھیلائی جارہی تھی، ایک ایسا بہت بڑا گروہ جو پاکستان میں زیر زمین اور دنیا بھر میں سرعام موجود ہے۔ ٹرانس جینڈر نامی لعنت کو عزت دار اور فطرت کے عین مطابق ثابت کرنے میں مصروف عمل ہے۔
قارئین آپ کو علم ہے کہ یہ ٹرانس جینڈر ہے کون؟ یہ ایک مکمل مرد ہیں۔ جسمانی طور پر ان کے اندر کوئی نقص نہیں تھا۔ شادی کرنے اور اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھا لیکن اس کے اندر نفسیاتی طور پر ایسی خرابی پیدا ہوگئی کہ یہ لڑکیوں کی طرح ناز وادا دکھانے لگا۔ اس نے خود کو لڑکی تصور کرلیا۔ اس کے اندر ہم جنس پرستی کی علامت پیدا ہوگئی۔ پاکستان میں 2018ء میں ایک قانون پاس ہوا جس کے تحت ایسے لوگ جو مرد ہونے کے باوجود خود کو عورت سمجھتے ہیں وہ خود کو اپنی من پسند جنس کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔ چناں چہ اس نے بھی خود کو ٹرانس جینڈر عورت کے طور پر نادرا کے آفس میں رجسٹر کروالیا۔ اب یہ جسمانی طور پر مرد خود کو ذہنی طور پر عورت ثابت کرکے ٹرانس جینڈر بن چکا ہے کیوں کہ اسے یہ کرنے کی آزادی اس کو ملک نے دی ہے۔ اگرچہ وہ مرد ہے لیکن صرف ذہنی طور پر خود کو عورت سمجھتا ہے تو اسے عورت کے طور پر سب ہی حقوق ملنے چاہئیں بعض لوگ ہجڑوں کو ٹرانس جینڈر سمجھ لیتے ہیں یہ شدید غلط فہمی ہے۔ انہیں ہیجڑا کہلانے کے لیے کس قانون کی ضرورت نہیں۔ عدالت عظمیٰ نے ان کو الگ شناخت دے دی ہے۔
یہ جو قانون بنایا گیا ہے یہ ہجڑوں کے لیے نہیں بلکہ جسمانی طور پر نارمل مردوں اور عورتوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ قانون جسمانی طور پر نارمل لیکن ذہنی طور پر نفسیاتی مریضوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ پاکستان کے سب ڈاکٹرز یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اس قسم کے نفسیاتی افراد کا مکمل علاج موجود ہے وہ علاج کے بعد دوبارہ نارمل ہوسکتے ہیں تو پھر اُن کو قانون تحفظ دے کر ہم جنس پرستی کی طرف راغب کیوں کیا جارہا ہے۔ یہ نیا قانون کے عذاب ہے جس کے تحت جسمانی طور پر مکمل مرد خود کو عورت قرار دے کر کسی دوسرے مرد کے ساتھ شادی کرکے دونوں پھر ہم جنسی پرستی کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ ایسا قانون سیدنا لوطؑ کی اس قوم کے اندر بھی نہیں بن سکا تھا جسے اس گناہ کی پاداش میں بدترین عذاب کا نشانہ بنا کر روئے زمین سے ان کا وجود ہی مٹادیا گیا تھا۔ افسوس عذاب الٰہی کو دعوت دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان جیسی مسلمان ریاست میں اس قانون کو جائز قرار دیا جارہا ہے۔ افسوس کے میرے پاکستانی یا تو لاعلمی کا شکار ہیں یا پھر جبراً خاموش کروایا جارہا ہے۔ آج آواز حق بلند کرنا بھی مشکل ہوچکا ہے۔ اس گناہ کا سب میڈیا والوں کو علم ہے لیکن روزی روٹی کے شکنجے میں اس طرح جکڑ دیا گیا ہے کہ ان کی روحیں بھی قید ہوگئی ہیں۔ ضمیر مرگئے ہیں۔ آواز نہیں اٹھاسکتے۔ پیارے نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ گناہ کے خلاف زبانی کلامی آواز اٹھانے والوں کا ایمان دل میں برا کہنے والوں سے ایک درجہ اوپر کا ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ جب گناہوں کا یہ عالم ہوگا تو انتظار کرو تیز آندھیوں، آسمان سے پتھروں کے برسنے کا، چہرے مسخ ہونے کا اور زمین میں دھنسائے جانے کا اللہ تعالیٰ جماعت اسلامی کے مشتاق احمد کو لمبی زندگی دے، ابھی آپ کے پاس وقت ہے جماعت اسلامی کا ساتھ دیں جس کے پاس آپ کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حصے کا کام کرنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے۔ آمین۔